ملک میں اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث موضوع پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا ہے۔
ن لیگی قیادت طے کرچکی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانی ہے اور کابینہ میں اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے گا مگر گزشتہ روز کابینہ اجلاس میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا ایجنڈا زیر غور نہیں آیا۔
ن لیگ شاید اب تک اتحادیوں کو قائل نہیں کرسکی ہے اسی وجہ سے اسے بحث کا ایجنڈا نہیں بنایا مگر ن لیگ اعتماد کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ تمام اتحادی بشمول پیپلز پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
وفاقی وزیربرائے قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس تحریک انصاف پر پابندی کے لیے مواد موجود ہے۔
وفاقی حکومت تحریک انصاف پر پابندی کے معاملے پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اتحادیوں کوبھی ساتھ ملایا جائے گا،تمام سیاسی اور قانونی پہلوؤں کو دیکھا جائے گا پھر ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔
ن لیگ کی قیادت کی جانب سے یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ہے مگر پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی پابندی پر واضح موقف اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
پیپلز پارٹی رہنماء شیری رحمان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں آپس میں ابھی تک مشاورت نہیں ہوئی ہے۔
ابھی ہمارے پارٹی چیئرمین اور پارٹی ممبرز بھی نہیں ہیں، پی ٹی آئی پر پابندی چھوٹا فیصلہ نہیں ہے اور پیپلز پارٹی سے غیر جمہوری اقدام کی توقع نہ کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ پابندی کے معاملے پر دلائل بھی سننے ہوں گے، بحرانی دور میں ناپ تول کر قدم رکھنے چاہئیں۔
بہرحال پیپلز پارٹی کے اب تک کے موقف سے یہی لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی الگ لائن لے کر کھڑی ہے ویسے بھی پیپلز پارٹی وفاق میں اپنے مضبوط پوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت سے اپنے شرائط پرکھیلے گی جس طرح بجٹ کی منظوری کے دوران پیپلز پارٹی نے اپنے مطالبات سامنے رکھے تو حکومت کو پیپلز پارٹی کے مطالبات ماننے پڑے۔
پیپلز پارٹی اب بھی اپنی پوزیشن اور سیاسی حالات کے مطابق ہی فیصلے کرے گی اور حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے سامنے کھڑی نہیں ہوگی چونکہ ن لیگ کی اتحادی حکومت کو پیپلز پارٹی کی سپورٹ حاصل ہے اگر پیپلز پارٹی کی حمایت ختم ہو جائے تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔
بہرحال تجزیاتی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت سے کمیٹی تشکیل دینے کی بات کرے گی تاکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی سے بات چیت کی جائے ۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہوگی کہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس جاتے ہی اڑ جائے گی تواس لئے اپنے سیاسی ساکھ کو متاثر ہونے سے بھی بچایا جائے اور مستقبل قریب میں وفاقی سیاست میں اپنی پوزیشن پر بہتر انداز میں رہا جا سکے ۔
سیاست میں کسی کیلئے دروازے بند نہیں ہوتے پیپلز پارٹی بھی شاید پی ٹی آئی سے بہت زیادہ خلیج نہیں چاہتی گوکہ قربت اتنی نہیں ہے مگر فاصلے بھی نہیں بڑھانا چاہتی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کی اتحادی حکومت پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے قائل کرپائے گی یا نہیں ،چند روز میں منظر نامہ واضح ہو جائے گا۔