|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2024

بلوچستان میں کرپشن کی ایک طویل تاریخ ہے ،صوبے کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور بیورو کریسی کی گورننس کے معاملات میں مداخلت ہے جبکہ صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کے ناجائز مطالبات اور فنڈز کا غبن بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے ،اسی وجہ سے بلوچستان اب تک سب سے پسماندہ صوبہ شمار ہوتا ہے۔

دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں اگرچہ یہاںوسائل کی بھی کوئی کمی نہیں ۔

اراکین اسمبلی کو فنڈز بھی ملتے ہیں مگر انہیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرنے کی بجائے جیبوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ من پسند آفیسران کی تعیناتی کرکے کرپشن کی جاتی ہے ۔
ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت ہونے کی وجہ سے اراکین صوبائی اسمبلی فرمائش پوری نہ ہونے پر بلیک میلنگ پر اتر آتے ہیں اس کا اعتراف خود بعض وزرائے اعلیٰ بلوچستان کرچکے ہیں ۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں باقاعدہ بولی لگتی ہے صوبے سے باہر تعلق رکھنے والی شخصیات رقم دیکر سینیٹ کی نشست حاصل کرتے ہیں جس کا تذکرہ زبان زدعام ہے کہ بلوچستان میں کرپشن سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سول سیکرٹریٹ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہمیشہ مخلوط حکومت ہوتی ہے جس میں وزیراعلیٰ بلیک میل ہوتا ہے لیکن مجھے جب تک ایوان کا اعتماد حاصل رہے گا اس وقت تک وزیراعلیٰ رہوں گا اور بلیک میل نہیں ہوں گا۔

میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں بیڈ گورننس کے ذمہ دار سیاستدان اور بیوروکریٹس دونوں ہیں، حکومت سنبھالنے کے بعد صوبے میں گورننس کا فقدان نظر آیا، 200 ارب کے ساتھ صوبے کو ترقی نہیں دی جاسکتی، سوال یہ ہے کہ یہ 200 ارب روپے کہاں جاتے ہیں، صوبے کا غیر ترقیاتی بجٹ جس تیزی سے اوپر جارہا ہے،کچھ عرصہ بعد ہمارے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بیوروکریسی کایہ نظام چلنے والا نہیں ہے، ہم نے صوبے کے لیے ایک ریفارم کمیٹی بنائی ہے، صوبے کو امن و امان، گورننس اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے، کم وسائل میں بہتر ڈلیور کرنا ہی کامیابی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الف انار ب بکری والی تعلیم سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، صحت کے لیے 80 ارب روپے سالانہ دیتے ہیں، ان پیسوں سے بلوچستان کے ہر فرد کا علاج مہنگی ترین نجی اسپتال سے ہوسکتا ہے، ہم صوبے میں مکالمہ شروع کررہے ہیں۔

بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی باتوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا مگر عملاً وزیراعلیٰ کو ایک بہترین ایگزیکٹیو کے طور پر کرپشن کو روکنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اپنانی ہوگی اور بیورو کریسی کے معاملات پر مکمل نظر رکھنی ہوگی تاکہ صوبہ میں گورننس کا نظام بہتر ہوسکے اور کسی بھی رکن اسمبلی کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوں چاہے اس کاتعلق وزیراعلیٰ کی اپنی پارٹی سے کیوں نہ ہو۔

اراکین اسمبلی کو جو فنڈز ملتے ہیں اس پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ ان کے حلقے میں کام ہورہا ہے یا پھر فنڈز ہڑپ کئے جارہے ہیں مگر یہ ذمہ داری تمام اراکین اسمبلی کی بھی بنتی ہے کہ اپنے حلقوں کے عوام کے ساتھ زیادتی نہ کریں، ان کے حقوق غصب کرنے کی بجائے انسانی وسائل پر رقم خرچ کریں، صوبے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ بلوچستان کے مسائل میں کمی آسکے اور عوام کی زندگیوں میں تبدیلی آسکے۔