|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2024

کوئٹہ: بلوچی اکیڈمی کی چھیاسٹواں جنرل باڈی اجلاس اتوار کے روز بلوچی اکیڈمی کمپلکس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں بلوچی اکیڈمی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے علاوہ مالی و انتظامی کاکردگی، کتابوں کی چھپائی اور دیگر امور پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔

جنرل باڈی اجلاس میں ممبران نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے تجاویز پیش کیے گئے۔

چیئرمین سنگت رفیق کی سربراہی میں چھیاسٹویں جنرل باڈی میں گزشتہ سال کے دوران منعقد کیے گئے ادبی سرگرمیوں، تقریبات، نشر و اشاعت اور پراجیکٹس کے بارے میں ممبران کوآگہی دی گئی۔

اس کے علاوہ سالانہ رپورٹ میں بلوچی اکیڈمی کے سالانہ اخراجات کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور منظوری لی گئی۔ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر بیزن سبا نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچی اکیڈمی نے بلوچی زبان کو ڈیجیٹلائزیشن اور مشین لرننگ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بلوچی زبان کے لیے نیچرل لینگویج پراسیسنگ (این ایل پی) پر کام کا آغاز کردیا ہے جس کے تحت بلوچی زبان کو سٹینڈرائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے عین مطابق ترقی دی جائے گی۔

بلوچی اکیڈمی کے جنرل باڈی اجلاس میں ممبران نے بلوچستان حکومت کی جانب سے اکیڈمی کے مالی گرانٹ کی کٹوتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلوچ اور بلوچی دشمنی کے مترادف عمل قرار دیا۔

ممبران نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی اور حکومتی نمائندوں سے درخواست کی کہ اکیڈمی کے گرانٹ کی کٹوتی کا فیصلہ واپس لیا جائے

۔ چھیاسٹویں جنرل باڈی اجلاس میں منعقدہ انتخابات میں ہیبتان عمر کو چیئرمین بلوچی اکیڈمی منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ وائس چیئرمین کے لیے محمد صدیق بلوچ، جنرل سیکریٹری کے لیے عرفان جمالدینی، فنانس سیکریٹری محمد صادق، پبلی کیشن سیکریٹری کے لیے ذاکر قادر کو بلامقابلہ منتخب کیا گیا۔ کابینہ ممبران کے لیے سنگت رفیق، ممتاز یوسف، ایڈوکیٹ چنگیز عیسیٰ اور شکیل بلوچ منتخب ہوگئے ہیں۔

جنرل باڈی اجلاس میں ممبران نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری اسکولوں میں بلوچی مضمون کا نصاب بنانے اور بلوچی کو پڑھانے کے لیے بلوچی ٹیچر تعینات کیے جائیں۔

اکیڈمی کے ممبران نے مطالبہ کیا اسکولوں میں بلوچی زبان کو پڑھانے کے لیے بلوچی ٹیچر تعینات کیے جائیں۔اسی طرح کالج لیول میں بلوچستان کے مختلف کالجز کے لیے بلوچی کی خالی اسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کے تحت مشتہر کرکے استاد مقرر کیے جائیں۔

ممبران نے حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچی اکیڈمی کی ادبی اور تحقیقی پراجیکٹس خاص کر بلوچی این ایل پی پراجیکٹ کے لیے اضافی فنڈز کا اجراء کیا جائے کیونکہ موجودہ مالی وسائل میں ایسے پراجیکٹ پر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔

بلوچی اکیڈمی کے ممبران نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ محکمہ سکول ایجویشن بلوچستان کے قومی زبان و ادب کے اداروں کی چھاپی گئی کتابوں کو اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں کے لیے مختص کرے۔ اسی طرح کلچر ڈیپارٹمنٹ پبلک لائبریریوں کے لیے انہی اداروں سے کتابیں خرید کر لائبریری کو فراہم کرے تاکہ نوجوان ان کتابوں سے استعفادہ کریں۔

اکیڈمی کے ممبران نے مجلس عاملہ کو ہدایت کی کہ وہ بلوچی زبان و ادب کی ترقی کے لیے اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں، بچوں کے لیے تعلیمی مواد کی تیاری، غیر ملکی زبانوں کی کلاسیک تخلیقات کو بلوچی زبان میں ترجمہ اور بلوچی کے شاہکار ادبی و تاریخی مواد کو انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ، بلوچی کے لہجوں اور ادبی تاریخ کے بارے میں تحقیق و اشاعت اور بلوچستان کی تاریخ کے بارے میں اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔