|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2024

ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہے خاص کر بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعدادبہت زیادہ ہے مگر اصل تعداد کسی بھی حکومت نے سامنے نہیں لائی جبکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تنظیم کی جانب سے جو تعداد حکومتوں کو پیش کی جاتی رہی ہے اسے حکومتی سطح پر مصدقہ نہیں کہا جاتا اس کے علاوہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی لاپتہ افراد کی تفصیلات مختلف حکومتوں کے سامنے پیش کیںاور بازیابی کے مطالبات بھی سامنے رکھے ۔ہر دور حکومت میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے اور بازیابی کے حوالے سے کمیٹیاں بنائیں گئیں مگر اس کے نتائج نہیں نکلے۔

وقتا فوقتاً لاپتہ افراد کے اہل خانہ سمیت بلوچستان کی مختلف تنظیمیں اس معاملے پر سراپا احتجاج بھی رہیں۔

 احتجاجی دھرنے، ریلیاں، جلسے جلوس سمیت اسلام آباد تک لانگ مارچ ہوئے پھر بھی مسئلہ جوں کا توں ہے ۔

گوادر دھرنا کے شرکاء کے مطالبات کی فہرست میں سب سے پہلے لاپتہ افراد کی بازیابی ہے ،گوادر سے شروع ہونے والا دھرنا مختلف اضلاع میں پھیلا ۔

اس اہم نوعیت کے مسئلے پر اب تک کوئی بھی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیے بغیر بلوچستان کا سیاسی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ۔

اول لاپتہ افراد کا درست ڈیٹا اکٹھا کیا جائے جس میں لاپتہ افراد کی تنظیموں سمیت بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کمیٹی تشکیل دی جائے اور یہ کمیٹی مکمل فعال اور متحرک ہوکر کام کرے اور لاپتہ افراد کی تعداد بارے حکومت اور متاثرین کے درمیان جو فرق ہے اسے حل کرے تاکہ اعتماد سازی کا ماحول بن سکے ۔

حکومت نے ہی سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو ڈیل کرنا ہے تاکہ مسئلہ حل ہونے کی جانب بڑھے۔

بہرحال تازہ پیش رفت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے مالی اعانت اور بحالی گرانٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔مالی اعانت 5 سال سے زائد لاپتہ افراد کے لواحقین کو دی جائے گی، 5 سال سے زائد لاپتہ افراد کی فیملی کو 50 لاکھ روپے بحالی گرانٹ دی جائے گی، مالی اعانت اور گرانٹ ایک ہزار خاندانوں کو دی جارہی ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ماضی میں ہم عالمی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے، دہشت گردی کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ افغان جنگ کے باعث پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے حکومت مسلسل کام کر رہی ہے، پی ڈی ایم حکومت نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی، نگراں حکومت میں بھی کمیٹی کام کرتی رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فرد کا لاپتہ ہو جانا اس کے اہلِ خانہ کے لیے بہت المناک ہوتا ہے، خفیہ اور ریاستی اداروں سے مشاورت کے بعد رپورٹ مرتب کی گئی تھی، لاپتہ افراد کے بارے میں کمیٹی کی رپورٹ کی کابینہ نے بھی توثیق کی تھی، حکومت کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کی امداد کی جارہی ہے۔

بہرحال پہلی ترجیح لاپتہ افراد کی بازیابی ہونی چائیے معاوضہ دینا مسئلے کا حل نہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے وارث ایسے کسی بھی معاوضے کو قبول نہیں کریں گے، لہذاحکومت کو لاپتہ افراد کے زندہ ہونے یا پھر مرجانے کی صورت میں ان کے خاندانوں کو بتاناہوگا۔

بہرحال لاپتہ افراد کیس کو جب تک ٹھیک طریقے سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جائے گا لہذا وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور تجاویز کے ساتھ فیصلہ کرے تاکہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں۔