کوئٹہ: کسی بھی جمہوری معاشرے میں میڈیا کی آزادی کا انحصار اور تعلق صحافیوں کی سلامتی اور معاشرے کے تمام طبقات کی صحافت میں شمولیت کے امور سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایسے موضوعات کے ساتھ کئی مسائل جڑے ہوئے ہیں۔
ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکانٹبلیٹی (ٹی ڈی ای اے)نے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ملک میں پریس کلبز اور صحافی یونینز کے تعاون سے سیف میڈیا پروگرام شروع کیا ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے تعاون سے جو نشست منعقد ہوئی جس میں ٹی ڈی ای اے کے نمائندہ رضا ہمدانی اور سلمان خواجہ، سینئر وائس پریزیڈنٹ پی ایف یو جے سلیم شاہد کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر خلیل احمد نے خطاب کیا
۔ پریس کلب کوئٹہ کے صدر عبد الخاق رندنے خطاب میں قومی میڈیا سے وابستہ مقامی صحافیوں کو درپیش مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بلوچستان میں پچھلے دو دہایؤں سے چالیس سے زائد صحافی شہید ہو چکے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے سیفٹی او ر سیکورٹی سے متعلق اندرون صوبہ صحافیوں کیلئے ورکشاپس یا تربیتی پروگرامز کا فقدان ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اخباری ملازمین کیلئے ویج بورڈ ایوارد کا قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے، جبکہ الیکڑونک میڈیا کے ورکرز کے لیے بھی اس طرز پر ویج بورڈ طرز پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
صدر پریس کلب کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بلا جواز پابندیوں کے باعث کئی ایک سینئر صحافی اپنے پروگرامز سوشل میڈیا پر چلانے او ر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں،
جس سے ہم پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کیلئے خطراک عمل تصور کرتے ہیں، سوشل میڈیا کو بھی ریگولریٹ ہونا چاہئے۔ صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس یونین، خلیل احمد نے کہا کہ آج کل صحافیوں کیلئے فیزیکل سیکورٹی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی معاشی سیکورٹی کی ضرورت ہے، انکے مطابق فیلڈ میں کام کرنے والے بلوچستان کے صحافی اب اس قابل ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی اور سیفٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں، موجودہ دور میں اصل مسئلہ صحافیوں کی بقا ہیں،
پرنٹ میڈیا پاکستان میں دم توڑ چکا ہے، جبکہ الیکٹرانک میڈیا بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
سرکاری و غیر سرکاری جتنی بھی تنظیمیں ہیں انہیں اب صحافیوں کے روزگار کے تحفظ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ جو مین اسٹریم میڈیا کے صحافی ہے انہیں ڈیجیٹل میڈیا سے روشناس کرانے کیلئے تربیتی ورکشاپس کا بڑے پیمانے پر کرائے جائے۔ نمائندہ ٹی ڈی ای اے سلمان خواجہ کا کہنا تھا کہ سیف میڈیا پروگرام صحافیوں کی پیشہ ورانہ اہلیت کو بڑھانے کے ساتھ ان کی حفاظت، سلامتی اور اطلاعات تک رسائی کے آئینی اور قانونی تقاضوں کو یقینی بنانے کی کاوش کا سلسلہ ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کا ہدف مقامی صحافیوں اور پریس کلبز کے منتخب نمائندوں کے ساتھ جرنلسٹس یونینز کی مشاورت سے حاصل کیا جائے گا۔ ٹی ڈی ای اے ملک کے مختلف اضلاع میں پریس کلبز کے عہدیداروں اور صحافیوں کے ساتھ مشاورتی عمل کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع،
بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ساٹھ سے زائد پریس کلبز کے ساتھ اجلاس کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیف میڈیا پروگرام کو صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ انہیں بااختیار بنانے کے میکنزم کی معاونت اور اجتماعی ایڈووکیسی کو تقویت دینے کیلئے ترتیب دیاگیا ہے۔ اس کے رسپانس فنڈ سے مقامی میڈیا ایسوسی ایشنز، پریس کلب،
جرنلسٹ یونین کوسیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسز جیسے ایونٹس کیلئے معاونت دی جائے گی۔
سینئر وائس پریزیڈنٹ پی ایف یو جے سلیم شاہد نے بتایا کہ ٹی ڈی ای اے نے رواں سال مئی میں اسلام آباد میں ایک سوک ڈائیلاگ بھی کرایا۔
اس میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو درپیش مسائل اور مشکلات کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے حل کی سفارشات تجویز کی گئیں۔ ان میں میڈیا ادارو ں میں ایڈیٹر کے موثر کردار کی بحالی، جرنلسٹ یونینز میں اتحاد و اشتراک، میڈیا مالکان کی طرف سے عائد قدغن کا سدباب، نیوز میڈیا اور صحافی فورمز میں خواتین کی حوصلہ افزائی اورصحافتی اداروں میں ٹریڈیونینز کی فعالیت شامل تھیں۔
انہوں نے صحافیوں کے تحفظ اور سکیورٹی کے لیے حکومتی اقدامات پر روشنی ڈالی جس میں ٹی ڈی ای اے اور پی ایف یو جے کے کردار کو بیان کیا۔
آزادی صحافت کی راہ میں حائل قانونی و انتظامی قدغنوں کو بھی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کو مل کر مشترکہ لائحہ عمل بھرپور ایڈووکیسی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سابق صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذولفقار نے بھی شرکت کی اور صحافیوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے تجاویز دیئے۔
کوئٹہ پریس کلب کے عہدیداروں نے محفوظ اور موثر صحافت کیلئے ٹی ڈی ای اے کے سیف میڈیا پروگرام کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ صحافت کی آزاد کے ساتھ اسے ذمہ دارانہ بنانے میں بھی معاون ہوگا