ملک میں معاشی بحران اپنی جگہ موجود ہے، ماضی کی نسبت موجودہ حالات میں صنعتیں بہتر انداز میں کام نہیں کرر ہیں جس کی بہتساری وجوہات ہیںخاص کر معاشی پالیسی پر واضح روڈ میپ نہیں اور نہ ہی تاجروں کو خاص سہولیات میسر ہیں۔ تاجر برادری بجلی بلوں سمیت دیگر مسائل پرریلیف نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ ٹیکسز کی بھر مار بھی درد سر بنتا جارہا ہے۔
ملک کو چلانے میں صنعتوں کا کلیدی کردارہوتا ہے جو سرمایہ کاری کرکے ملکی معیشت کو چلاتے ہیں ۔
کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے یہاں تاجر سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر انہیں وہ ریلیف میسر نہیں جس سے وہ کاروبار کو وسعت دے سکیں، غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سی صنعتیں بند ہوگئیں ہیں ملک کے سرمایہ کار باہر سرمایہ کاری کرنے پرسوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے اس پر وفاقی حکومت کو فکر مند ہونا چاہئے۔
جب صنعتیں بند ہونے لگتی ہیں تو معاشی مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں ایک تو سرمایہ ملک سے باہر جانے لگتا ہے تو دوسری جانب بڑے پیمانے پر بیروزگاری ہو جاتی ہے۔
قومی ادارے جو کسی زمانے میں منافع بخش اداروں میں شمار ہوتے تھے مگر افسوس سیاسی مداخلت اورغلط پالیسیوں ،سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے یہ ادارے تباہ ہوئے، اب ان کی نجکاری کی جارہی ہے اگر ماضی کی حکومتیں قومی اداروں کے اندر مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں نہ کرتیں تو یہ ادارے خسارے میں نہ جاتے ۔
سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ملبہ ڈال دیتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ میرٹ کی پامالی ،ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قومی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے جس کا سبھی سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں۔بہرحال اب حکومت نئی معاشی پالیسیوں کے ذریعے موجودہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ سے متعلق بنائی گئی کمیٹی نے 5 وزارتوں میں 28 اداروں کو مکمل بند اورایک لاکھ 50 ہزارکے قریب خالی آسامیاں ختم کرنے کی سفارشات پیش کردیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت حکومتی ڈھانچے کے حجم اور اخراجات میں کمی پر اجلاس ہوا۔اجلاس میں وفاقی حکومت کی رائیٹ سائزنگ سے متعلق بنائی گئی کمیٹی نے تجاویز پیش کیں۔
کمیٹی نے وزارت امورکشمیر وگلگت بلتستان اور وزارت سرحدی امور کو ضم کرنے کی تجویز دی جبکہ اجلاس میں 5 وزارتوں میں 28 اداروں کو مکمل بند کیے جانے کی بھی تجویز پیش کی گئی۔
5 وفاقی وزارتوں میں اصلاحات اور ایک لاکھ 50 ہزارکے قریب خالی آسامیاں ختم کرنیکی سفارشات دی گئیں اور تجویز دی گئی کہ وزارتیں ختم یا ضم کرنے سے گریڈ ایک سے 16 تک متعدد اسامیاں بتدریج ختم کی جاسکیں گی۔کمیٹی نے ہنگامی بنیادوں پر بھرتیوں پرمکمل پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی کی۔
اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھاکہ حکومتی اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے، ادارہ جاتی اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پربوجھ کم کرنا، عوام کوسہولت دیناہے۔
انہوں نے کہا کہ کارکردگی نہ دکھانے والے اور قومی خزانے پربوجھ اداروں کوختم یا ان کی نجکاری کی جائے۔
بہرحال قومی اداروں کی بندش اور ملازمتوں پر پابندی سے نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کرنے والوں سے کام زیادہ جبکہ تنخواہ کم دی جاتی ہے ،اس حوالے سے بھی سخت قانون سازی کی ضرورت ہے،۔
پرائیویٹ ادارے ملازمین کا خون نچوڑتے ہیں جبکہ تنخواہ انتہائی قلیل دیتے ہیں نیز روزگار کی سیکیورٹی سمیت دیگر سہولیات کی کوئی گارنٹی نہیں ۔
اس لئے آج کا نوجوان مایوس ہوکر بیرون ممالک جانے کو ترجیح دے رہاہے ،خدارا معاشی اصلاحات کے ساتھ عوام کا بھی سوچا جائے خاص کر نوجوان نسل کا جو محنت سے پڑھ لکھ کر بہترین روزگار کی خواہش رکھتے ہیں ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کی بجائے ان کیلئے بہترین روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں اور معاشی پالیسی کو بہتر کرتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے۔
ملک کے سرمایہ کاروں بھی کو ریلیف دیا جائے اور انہیں اپنی صنعتوں میں ملازمین کو بہترین تنخواہ دینے کے ساتھ تمام سہولیات دینے کا پابند بھی کیا جائے جس طرح دیگر ممالک میں پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کو سہولیات میسر ہیں۔