بلوچستان میں یکم جولائی سے شروع ہونے والی مون سون بارشوں نے مختلف اضلاع میں تباہی مچادی ہے ۔
بارشوں سے 3 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
صوبے بھر میں مختلف حادثات میں 19 افراد جاں بحق اور 11 زخمی ہوئے ہیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ یکم جولائی سے اب تک مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث 417 مکانات کو نقصان پہنچا ہے، 124 گھر مکمل منہدم اور 293 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔
طوفانی بارشوں سے 97 ایکڑ پر فصلیں اور31 کلو میٹر سڑکیں متاثر ہوئیں، 6 پْلوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ بارشوں کے دوران 120 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔
گزشتہ روز نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی نے ملک بھر میں یکم جولائی سے 17 اگست تک ہونے والی موسلادھار بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کی تھی۔
بلوچستان میں یکم جولائی سے مون سون کے دو خطرناک اسپیل دیکھے گئے، حالیہ بارشوں سے صوبے کے 16 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
صوبائی حکومت نے قلات، زیارت، آواران، کچھی، لورالائی، صحبت پور اور لسبیلہ کے اضلاع کی کئی یونین کونسلوں کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
سب سے زیادہ بارش قلات میں 48 ملی میٹر، اوستہ محمد میں 34 ملی میٹر ، سبی میں 21 ملی میٹر، کوئٹہ اور خضدار میں 10 ملی میٹر جب کہ ژوب اور چمن میں 9 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔
بلوچستان نیشنل ہائی وے اتھارٹی حکام کے مطابق شمالی بلوچستان کی تمام قومی شاہراہیں ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھلی ہیں جب کہ اتھارٹی سیلابی پانی سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے 24 گھنٹے کام کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ 2022 میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے پاکستان نے ایک تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا، حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور میں 1700 افراد جاں بحق ہوئے۔
2022 کے سیلاب سے صوبہ سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، بلوچستان میں 336 افراد جاں بحق ہوئے اور 4 لاکھ 26 ہزار 897 گھر تباہ ہوئے۔ بلوچستان میں 2022 کے طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث متاثر ہونے والے افراد کی اب تک مکمل داد رسی نہیں ہوئی ہے ۔
جبکہ حالیہ بارشوں سے ان کی مشکلات میںمزید اضافہ ہوگا۔
پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جائے گی اعلان بھی موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کیا تھا جنہوں نے اس وقت وزیراعظم کے منصب پر فائزہوکر متاثرہ علاقوں کا باقاعدہ دورہ بھی کیا تھا۔
بلوچستان حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ تمام متاثرین کو ہنگامی بنیادوں پر امدا مہیا کرسکے اور ان کی بحالی کے حوالے سے اقدامات اٹھاسکے، تاہم جتنی سکت ہے بلوچستان حکومت کام کررہی ہے ۔
لہذااب وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں متاثرین کی امداد کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھائے ،ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کرے تاکہ عالمی سطح پر بلوچستان کے متاثرین کی بحالی کا کام ممکن ہوسکے جس طرح سے سندھ میں سیلاب متاثرین کو گھر بناکر دیئے جارہے ہیں ،زمینداروں کی مالی معاونت بھی کی جارہی ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی امدادی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے ساتھ عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ متاثرین کی مشکلات میں کمی آسکے۔