|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جناب جسٹس جمال خان اور جناب جسٹس شکیل احمد پر مشتمل بینچ نے سید عتیق انور کی جانب سے نیب کی پلی بارگین کے ذریعے بدعنوانی کی رقوم کی وصولی کے حوالے سے دائر آئینی پٹیشن نمبر1048-2010کی سماعت کرتے ہوئے بدعنوانی کے حوالے سے برآمد شدہ رقوم کی پلی بارگین کے ذریعہ رضاکارانہ واپسی سے متعلق وزارت خزانہ کی اس حوالے سے ہدایت اور نظر ثانی شدہ متعلقہ طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ نیب کے توسط سے فرد /افراد ،وفاقی اورصوبائی محکموں/دفاتر، خود مختار/نیم خود مختار اداروں یا ایسے کسی بھی دیگر اداروں جو کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کے زیر انتظامآتے ہوں سے کسی بھی ذریعے سے موصول ہونے والی رقوم اسٹیٹ بینک میں انکے وفاقی یا صوبائی پبلک اکاؤنٹ میں جمع کرائی جائیں جیسا کہ کیس کی نوعیت ہو فیصلہ کے مطابق آئین کے تحت کوئی اتھارٹی ، محکمہ آرگنائزیشن یا حکومت کو کسی بھی شخص سے کسی بھی مدمیں کوئی رقم وصول کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے ماسوائے جس کی پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعے انہیں اجازت دی ہو عدالتی حکم کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے برآمد شدہ رقم میں25فیصد کٹوتی کے حوالے سے واضح ہدایت اور طریقہ کار کے تعین کے بعد یہ کٹوتی آئین کے آرٹیکل 78 اور118کے تحت غیر قانونی ہے اس سلسلے میں جہاں تک نیب کی مالی طور پر خود انحصاری اور اسکے آفیسران و اہلکاران کو انعام وغیرہ دینے کا تعلق ہے تو قواعد کے مطابق نیب کے مجاز حکام کی منظوری سے انہیں نیب کی جانب سے برآمد کردہ رقم میں سے 25فیصد کٹوتی شدہ رقم کے بجائے نیب کیلئے مختص کردہ بجٹ سے انعام وغیرہ دیا جاسکتا ہے فیصلے کے مطابق وزارت خزانہ کی جاری کردہ ہدایات /طریقہ کار کے مطابق نیب کی جانب سے رضاکارانہ طور پریا پلی بارگین کے ذریعے برآمد کردہ رقوم سے کٹوتی کی ممانعت ہے لہذا نیب حکام کو متعلقہ آرڈیننس کے سیکشن 25کے تحت پلی بارگین یا رضا کارانہ مد میں وصول کردہ رقم میں سے 25فیصد کٹوتی سے روک دیا گیا ہے نیب کو رضاکارانہ طور پر یا پلی بارگین کے ذریعے وصول شدہ تمام رقوم بلا کٹوتی آئین کے مطابق فیڈریشن اور صوبے جیسا کہ کیس کی نوعیت ہو کے پبلک اکاؤنٹ میں ایک ماہ کے اندر جمع کروانا ہوں گی نیب کو متعلقہ بینک ، مالیاتی ادارے ، کمپنی،باڈی، کارپوریٹ، کوآپریٹو سوسائٹی ، اتھارٹی یا نیم خود مختار ادارے کی جانب سے (On Behalf of ) وصول شدہ رقوم ان مذکورہ اداروں کے متعلقہ اکاؤنٹ میں جمع کرانا ہوں گی عدالت کے حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت کسی عدالت سے نیب کو بطور جرمانہ وصول شدہ رقوم براہ راست صوبائی یا وفاقی حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں جمع کرواناہوں گی جبکہ جرمانہ کی مد میں نیب آرڈیننس کے تحت غیر قانونی اور غیر ثابت شدہ اثاثوں کی ضبط شدہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد صوبائی یا وفاقی حکومت جیسے کہ کیس کی نوعیت ہو کی ملکیت ہوں گی۔