کوئٹہ: افغانستان سے جبری طور پر لاپتہ کئے جانے والے محمود علی لانگو کی والدہ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ محمود علی پر ملکی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے
اگر جرم ثابت ہو تو سزا دی جائے ہے اگر بے گناہ ہے تو رہا کیا جائے بصورت دیگر ہم 29 اگست کو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب سے افغان قونصلیٹ تک امن مارچ کریں گے
وہاں پر یاد داشت پیش کریں گے۔ یہ بات انہوں نے عدالت روڈ پر لگائے گئے لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں ماما قدیر بلوچ اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی انہوں نے کہا کہ محمود علی لانگو ولد عثمان کو ایک سال قبل افغانستان کے صوبہ نمروز میں بطور مہاجر رہائش پذیر تھا۔
جس کو18 جون کو افغانستان کی حکومت کے تعاون سے پاکستان کے خفیہ اداروں نے اسے گرفتار کر کے پاکستان لے آئے جو ان کی تحویل میں ہے انہوں نے اقوام متحدہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ریڈ کر اس انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ انٹر نیشنیلی ادارے قانون کے تحت اسے کسی بھی عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر حکومت پاکستان کو مطلوب ہے
تو اس پر ملک کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے اگر اس پر جرم ثابت ہو جائے تو اس کو ملک کے قانون کے تحت سزادی جائے اور اگر بے گناہ ہے تو اسے رہا کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی افغانستان سے بہت سے بلوچ مہاجرین کولا پتہ کیا گیا اور ان کو بعد میں حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
افغان حکومت نے محمود علی لانگو کوحکومت پاکستان کے حوالے کیا ہے۔اس لیے ہم اپنے خاندان کے ہمراہ محمد علی لانگو کی افغانستان سے جبری گمشدگی کے حوالے سے 29 اگست کو اپنے 10 لوگ پر امن طریقے سے کوئٹہ پریس کلب سے افغانستان کے قونصل خانے تک پر امن مارچ کرینگے
اور افغان قونصلیٹ کو ایک یاداشت پیش کرینگے کہ وہ ہمیں محمود علی لانگو کے حوالے سے معلومات فراہم کرے اور ہم ایک ہفتہ یاداشت کے جواب کا انتظار کرینگے اگر افغان قونصلیٹ کی طرف سے ہمیں جواب نہیں ملا تو ہمارے خاندان کے لوگ پر امن اور آئینی طریقے سے افغان قونصلیٹ کے سامنے دہرنادینگے۔