مردان ،کوئٹہ: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے معروف قوم دوست رہنماء اور پشتونخوامیپ کے مرکزی سیکرٹری جنرل شیر علی باچا کی 25 ویں برسی کے موقع پرشیر گڑھ مردان شیرین باچا کی رہائش گاہ پر تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیر علی باچا کی پشتون حقوق کے لیے غیر متزلزل عزم اور قوم دوست سیاست اور ان کے اعلیٰ سیاسی ، ادبی خدمات پر انہیں زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون قوم کی تحریری تاریخ 3ہزار سال پرانی ہے اور موجودہ خطے پر تقریباً 5ہزار سال سے آباد ہے ، پشتون وطن قدرت کے خزانوں سے مالا مال ہے ۔
انہوں نے ملک کے حکمرانوں کے اس رویے کی مذمت کی کہ بیش بہا وسائل کے باوجود پشتون قوم کو نان شبینہ کا محتاج بنادیا ہے۔ پشتون وطن کا مسلط انگریزی بٹوارہ تاحال جاری ہے ، پشتون جنت نظیر وطن میں سب کچھ اور خصوصاً انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے پشتونوں کے پانی ، بجلی ، گیس ، جنگلات اور معدنی خزانوں پرقبضہ جاری ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائیگا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے،
ترقی دینے کے راستے میں رکاوٹیں ، زور وزر زبردستی کی پالیسی اپنائی گئی ہے ۔ آج آئین پائمال ہے سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے ، معاشی طور پر ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،
معاشرتی خصوصاً اخلاقی بحران روز بروز بڑھتا جارہا ہے ۔
آج ملک پر کٹھ پتلی زر وزور اور انتخابی عمل کے نام پر انتخابی نیلام کے فارم 47کی غیر نمائندہ حکومت مسلط ہے ۔
اس وقت ملک کے اقتدار پر قابض اور حزب مخالف دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ایسا لائحہ عمل طے کرے کہ حالیہ مسلط حکومت کا خاتمہ ہو اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر صاف شفاف غیر جانبدارانہ الیکشن ہو اور ملک کی اقتدار جیتنے والی پارٹی کے حوالے ہو تاکہ وہ ذمہ داری سے ریاستی حکومتی امور کو چلانے کا کردار ادا کرے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ انگریزوں نے ہمیں بہترین جوڈیشری ، ریلوے، تعلیم، صحت ، مواصلات کا نظام دیاہم نے ان کے خلاف اس لیئے جدوجہد کی کہ ہم اپنے وطن پر اپنی حق حکمرانی چاہتے تھے۔
حقیقی آزادی صرف سڑکوں، ہسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس میں انسانی حقوق، جمہوری حکمرانی اور قانون کی بالادستی شامل ہے۔محمودخان اچکزئی نے تاریخی پشتون علاقوں کے ایک صوبے ”پشتونستان” کا حصہ ہو اور موجودہ بے اختیار سینیٹ کو بااختیار بنانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے 1991 کے سندھ طاس معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے تحت پشتون صرف اپنے پانی کا 5فیصد استعمال کر سکتے ہیں اور باقی کاشتکاری بارانی پانی پر منحصر ہے۔
انہوں نے افغانستان میں ممکنہ نئے جنگ کے خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا اور تمام سیاسی جماعتوں اور پشتون وطن کے تمام سٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ اس آنے والے بحران کو روکنے کے لیے مل کر کام کریں۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ثقافتی حوالے سے خیبر پختونخوا میں رہنے والی 35 سے زائد چھوٹی اقلیتوں اور ان کے لسانی اور ثقافتی ورثے کو بچانے کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومت سے درخواست کی کہ وہ پشتو اکیڈمی کی طرز پر مزید ان اقوام کے اکیڈمیز قائم کرے۔آخر میںمحمود خان اچکزئی نے ان لوگوں پر زور دیا جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے خلاف جرائم کیے ہیں،
کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان اقدامات کو روکیں تاکہ پاکستان حقیقی جمہوری اقدار کو اپنا سکیں۔ انہوں نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ یک حقیقی جمہوری پاکستان ، آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی ،
پارلیمنٹ کی خودمختاری اور قوموں کے برابری پر مبنی حقیقی فیڈریشن کی راہ اپنا کر مسائل کا حل نکالناہوگا۔ تعزیتی جلسے سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ،صلاح الدین خان اچکزئی ،علائوالدین خان کولکوال، تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مرکزی ترجمان حسین اخونزادہ، پشتونخوامیپ کے صوبائی صدر خیبر پشتونخوا ڈاکٹر محمد علی ، سابق ایم پی اے میر کلام وزیر ، مراد علی باچا اور ضلع سیکرٹری مردان پرویز خان نے بھی خطاب کیا ۔
اس موقع پر پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرئوف لالا، مرکزی سیکرٹری نذیر جان لالا، نعمت خان کاکڑ سمیت خیبر پشتونخوا کے صوبائی وضلعی رہنمائوں نے بھی شرکت کی ۔
بعد ازاں پارٹی چیئرمین انگلش کے پروفیسر ریٹائرڈ پارٹی کارکن انوار الحق خان کے گھر گئے اور ان کی خیریت دریافت کی ۔