|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2024

کوئٹہ: وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں پر تشدد واقعات اور بے گناہ انسانی جا نوں کی قتل و غارت گری کی مذمت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کے لئے ان واقعات میں ملوث عناصر کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے گی سرکاری محکموں میں ان کے سہولت کار اور ہمدرد بیٹھے ہیں

ہمیں دہشت گردوں اور حکومتی پالیسیوں سے سیاسی طور پر ناراض لوگوں میں فرق کرنا ہوگا کیونکہ یہ جنگ ریاست کو کمزور کرنے کے لئے ہے اس کے خلاف تمام اداروں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو ریاست کا ساتھ دینا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کی شام صوبائی وزراء میر ظہور احمد بلیدی، حاجی علی مدد جتک، راحیلہ حمید خان درانی، میر عاصم کرد گیلو اور اراکین اسمبلی ملک نعیم احمد بازئی، اسفند یار خان کاکڑکے ہمراہ وزیرا علیٰ سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ شب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں نے مختلف واقعات کے دوران 38 بے گناہ 38 پاکستانی معصوم شہریوں کو شہید کیا ہے یہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا کیونکہ دہشت گرد کا کوئی مذہب اور کوئی قوم نہیںہوتی وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے

انہوں نے بتایا کہ دہشت گرد پہاڑوں سے آکر بلوچستان کی ہزاروں کلو میٹر طویل ہائی ویز پر معصوم لوگوں کو آسان ہدف سمجھ کر بے دردی سے شہید کرتے ہیںان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے ،

اب تک 21 دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاچکا ہے اور مزید 4 سے پانچ دہشت گردوں کے بھی مارے جانے کی اطلاعات ہیں ہم ان دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے اور آخری دہشت گرد کو مارے جانے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے دہشت گردوں ان کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کو نہیں چھوڑیں گے ملک کے دیگر علاقوں میں مذہب کے نام پر دہشت گردی ہو رہی ہوتو یہاں کیوں ایسے دہشت گردوں کو ناراض بلوچ کا نام دے کر ان کے لئے نرم گوشہ کیوں پیدا کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف حکومت اور اداروں کی جنگ نہیں بلکہ یہ جنگ میڈیا اور عوام نے بھی لڑنی ہے یہ دہشت گرد نرم ترین ہدف اور عوام کو ڈھونڈتے ہیں

ان کو مارکر ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں بلوچستان کے لوگ امن اور ترقی چاہتے ہیں ہمارے پاس تمام قسم کے شواہد موجود ہیں کہ ان کو کون سپورٹ کررہا ہے ،یہ بلوچ روایات نہیں کہ آپ نے بے گناہ مسافروں کو ماردیا تربت میں آبادی کے اندر سے فورس پر راکٹ داغے جاتے ہیں ایسی آبادی کو سوچنا پڑے گا جہاں دہشت گرد روپوش ہوجاتے ہیں اور انہیں تحفظ دیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں فساد پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے ہمارے قوم پرست کہتے ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہئیںتو میں قوم پرستوں کو کہنا چاہتاہوں کہ کس سے مذاکرات کریںمظلوموں کو قتل کرکے اپنے آپ کو شیر کہتے ہیں بلوچستان کے لوگ امن چاہتے ہیں

جو ہتھیار ڈالنا چاہتا ہے اسے ویلکم کرینگے مسافروں کو قتل کیا جارہاہے اور ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے یہ جنگ صرف دہشتگردوں اور پاک فوج کی نہیں بلکہ معاشرے کی بھی ہے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کو آزاد کریںمعصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں کے ساتھ کیسے مذاکرات کرسکتے ہیں

لاپتہ افراد ایک ایشو ہے 80 فیصد مسئلہ حل کردیا گیا ہے ۔اس کے لئے کمیشن تشکیل دیا گیا ہے اور بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیں کیونکہ میں سیاسی جماعتوں اور رہنمائون جن میں سردار اختر مینگل ،ڈاکٹر مالک بلوچ ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر رہنمائوں کے ساتھ سیاسی مسئلہ ہی سیاسی طور پر ہی حل کریں گے۔ دہشتگردوں کے ساتھ نہیں یہ بلوچستان میں منظم طور پر دہشتگردی ہورہی ہے۔

بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب کے اہلخانہ والے سرکاری ملازم ہیںاب وقت آگیا ہے کہ طے کیا جائے کہ وہ آزادی پسندوں کے ساتھ ہیں یا ریاست کے ساتھ ۔انہوں نے بتایا کہ 4جی انٹرنیٹ سروس کے ذریعے دہشتگرد اپنے پیغامات پھیلاتے ہیں۔

اسمبلی میں اس بارے بحث کرینگے کہ 4g انٹر نیٹ کی سروس کو مثبت کاموں کے لئے رکھنا ہے یا ایسی کارروائیوں اور دہشت گردوں کے عزائم کو روکنے کے لئے اس کو کنٹرول کرنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ معاشرے کے تمام طبقات کو دہشت گردوں کے خلاف ریاست اور حکومت کا ساتھ دینا چاہئے

تاکہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوسکیں اور سوشل میڈیا پر جس طرح دہشت گردوں کو ہمدردی کا بیانیہ دیکر انہیں معاشرے کا معصوم ظاہر کیا جاتا ہے ہمیں ایسی چیزوں سے گریز کرنا چاہئے اور نوجوان نسل اپنے آپ کو ان دہشت گردوں کے چنگل سے دور رکھیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 2000ء میں شروع ہونے والی پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ مختلف اوقات میں بڑھتا اور کم ہوتا رہا ہے کیونکہ اس وقت ایک چیف جسٹس کو قتل کیا گیا

اور اس کے حوالے سے جس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اس کے بعد ریاست کے خلاف انتقامی کارروائیاں اور سازش کا سلسلہ شروع کردیا گیا حکومت ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی اور دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔