گزشتہ دنوں وزارت خزانہ نے 2008 سے 2024 تک لیے گیے قرضوں کی تفصیلات پیش کردیں۔
جون2008 میں سرکاری قرض 6.1 کھرب تھا جو 2024 میں 67.5 کھرب روپے تک پہنچ گیا جب کہ جون 2008 میں اندرونی قرضہ 3.3 کھرب اور بیرونی قرضہ 2.9 کھرب روپے تھا، جون 2024 میں اندرونی قرضہ 43.4 کھرب اور بیرونی قرضہ 24.1 کھرب روپے تھا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اندرونی قرضوں میں 40.2کھرب اور بیرونی قرضوں میں 21.3 کھرب روپے اضافہ ہوا، 16 سال میں قرضوں میں پرائمری خسارے کی وجہ سے 10.2 کھرب روپے اضافہ ہوا جب کہ 16 سال میں قرضوں میں سود اخراجات کی وجہ سے 32.3 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔
16 سال میں قرضوں میں دیگر معاملات کی وجہ سے 18.9 کھرب روپے اضافہ ہوا، سال 2008 میں سرکاری قرضہ 6.1 کھرب اور 2013 میں 12.7 کھرب روپے تھا جو 2018 میں 25 کھرب ہوا، 2019 میں سرکاری قرضہ 32.7 کھرب روپے تھا جو 2022 میں 49.2 کھرب ہوا جب کہ سال 2023 میں سرکاری قرضہ 62.9 کھرب روپے تھا۔
2019 میں قرضوں میں اضافہ 7.8 کھرب، 2022 میں 9.4 کھرب اور 2023 میں 13.6 کھرب روپے قرضوں میں اضافہ ہوا جب کہ مارچ 2024 میں ملکی قرضہ 67.5 کھرب روپے ہے۔
اس کے علاوہ 2021 میں سوداخراجات 2.8 کھرب، 2022 میں 3.2 کھرب، 2023 میں 5.7 کھرب اورمارچ 2024 تک 5.5 کھرب روپے ہے۔
بہرحال رپورٹ کے مطابق یہ واضح ہے کہ قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے جس سے سود کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے جو کہ معاشی حوالے سے نیک شگون نہیں کیونکہ قرضوں کی ادائیگی سود سمیت مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گی جبکہ مہنگائی کی شرح پہلے سے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جس کا بیشتر بوجھ عوام پر ہے جبکہ کاروباری طبقہ بھی موجودہ ملکی معاشی تنزلی کی وجہ سے پریشان ہے۔ بہرحال مشکلات سے نکلا جاسکتا ہے جس کیلئے معاشی حوالے سے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے حکومت کو دن رات محنت کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔
حکومت اپنی تمام تر توجہ معاشی پالیسی پر صرف کرے، لانگ ٹرم معاشی پالیسی سے ہی ملک مشکل حالات سے نکل سکتا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تاجر برادری کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا، سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ حکومت کی بہترین معاشی پالیسیوں میں ساتھ دے تاکہ ملک میں موجود معاشی بحران سمیت قرضوں سے نجات مل سکے۔