|

وقتِ اشاعت :   August 31 – 2024

بلوچستان میں گزشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعات کے بعد ایک بار پھر بلوچستان کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔
بلوچستان کی تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں سمیت ہر مکتبہ فکر کی جانب سے واقعات کی مذمت کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز امن اور خوشحالی چاہتے ہیں ۔
یہ آج کی بات نہیں دہائیوں سے بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز بلوچستان کی ترقی، خوشحالی اور امن کے خواہاں ہیں اور آئین میں موجود صوبے کے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان کے سیاسی مسائل، محرومیوں، پسماندگی کے خاتمے کیلئے وہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔
اب بھی بلوچستان میں شورش کے خاتمے کیلئے اسٹیک ہولڈرز سے بیٹھ کر بات چیت کی جاسکتی ہے آل پارٹیز کانفرنس بلاکر تجاویز لی جاسکتی ہیں تاکہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے ۔
لیکن اس کے ضروری ہے کہ ماضی کی روایت کو ترک کرتے ہوئے تجاویز پر عملی طور پر کام کیا جائے، ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے ٹاسک دیتے ہوئے بااختیار کیا جائے تاکہ مثبت نتائج برآمد ہوسکیں اور دہشت گردی جیسے واقعات رونما نہ ہوں۔
بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے ذریعے کسی نے بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کئے بلکہ مسائل مزید پیچیدہ ہوتے گئے ۔
بہرحال موجودہ حالات کے پیش نظر گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر ہے اس میں تاخیر نہ کی جائے۔
گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میںپاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، وزیراعلیٰ بلوچستان، وفاقی وزراء نے شرکت کی۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ایپکس کمیٹی اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے، صوبے کی ترقی کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کرنا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس لمحے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے پْرعزم ارادے کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔
بہرحال یہ حکومتی سطح پر ایک اہم اجلاس تھا اورحکومت کی جانب سے ردعمل کابھی اظہارتھا۔
یقینا دہشت گردی خاص کر معصوم نہتے لوگوں کے قتل کی کوئی حمایت نہیں کرتا اور اس عمل سے بلوچستان کا اصل مسئلہ پس پشت چلا جاتا ہے۔ اب بلوچستان کے اہم سیاسی، معاشی معاملات جو شورش سے جڑے ہیں اس طرف مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے ایک واضح روڈ میپ کیلئے سب کو مشترکہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان جو دہائیوں سے بہت سے مسائل کا شکار ہے ان سے نکل سکے۔
بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی ازالہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
امید ہے کہ طاقت سے زیادہ ڈائیلاگ اور سیاسی مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ بلوچستان میں دیرپا امن کے ساتھ خوشحالی کا بھی آغاز ہوسکے جس میں عوام کی وسیع پیمانے پر شراکت داری ضروری ہے جو دہائیوں سے مسائل اور مشکلات میں گرے ہوئے ہیں۔