کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی ) کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ میں پاکستان کی سیاست اور ریاست سے مایوس ہو چکا ہوں،
ریاست سے کوئی تھوڑی بہت بھی امید ہوتی تو بلوچستان کے نوجوانوں سے کہتا کہ ہتھیار پھینک دو، مت لڑو ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں جانے کا کوئی مقصد ہی نہیں بنتا تھا، جو فیصلے اسلام آباد میں بیٹھ کر لیے جاتے ہیں وہ آ کر بلوچستان میں سنائے جاتے ہیں، ہم 77 سال سے جو کہہ رہے ہیں وہ کوئی سن ہی نہیں رہا ہے ان خیالات کا اظہار پوڈ کاسٹ انٹرویو میںسردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ وزیر اعظم موسی خیل سانحے کے 3 دن بعد بلوچستان آئے، کچھ دنوں بعد وہ اس سانحہ کو بھی بھول جائیں گے، بلوچستان ان لوگوں کی ترجیح ہی نہیں ہے، اس لیے کہ ہم قومی اسمبلی میں اقلیت میں ہیں،
ہماری نمائندگی ہی نہیں ہے مجھ سے اپیکس کمیٹی میں شریک ہونے کے لیے کہا گیا،لیکن جب ایجنڈا پوچھا گیا تو کہا گیا کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر بات کرنی ہے تو میں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس معاملے میں، میں اسٹیک ہولڈر ہی نہیں ہوں۔ میری تو اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے،
یہ ان لوگوں کو بلائیں جنہیں فارم 47 کے ذریعے بلوچستان کی نمائندگی دی گئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ میںپاکستان کی سیاست سے مایوس ہو چکا ہوںایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ میں بلوچستان کے عوام سے مایوس نہیں ہوں تا ہم میں پاکستان کی سیاست سے مایوس ہو چکا ہوں کیوں کہ پاکستان میں سیاست رہی ہی نہیں ہے، ہم تو اس لیے سیاست میں آئے تھے کہ ہمارے آباو اجداد نے کہا تھا کہ یہاں جمہوری اصولوں،
آئین و قانون کی بالادستی والی سیاست ہو گی۔ جمہوریت مضبوط ہو گی۔انہوں نے کہا کہ کیا ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم فارم 47 کے ذریعے جمہوریت لائیں گے، کیا کسی جج یا آرمی چیف کی مدت ملازمت کو توسیع دے کر جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں؟
بلوچستان میں پہلے بیرونی مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا اب خوارج کا نام دیا جا رہا ہے،کیا نواز شریف کی جب حکومت ختم کی گئی تو ان کی شوگر مل میں یہ انکشاف نہیں کیا گیا تھا کہ اس میں ہندوستانی لوگ رکھے گئے ہیں۔کیا وہ خارجی نہیں تھے؟عمران خان کی جو حکومت ختم کی گئی
کیا ان پر یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ وہ یہودیوں اور اسرائیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومتیں ان الزامات پر ختم ہوئی ہیں کہ وہ بیرونی قوتوں کے لیے کام کرتی ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ کیا نواز شریف کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، ان پر دہشتگردی کی دفعات لگا کر بیڑیاں پہنا کر جہاز میں نہیں ڈالا گیا؟ پھر اگر ایسا ہے تو بلوچستان والوں کو دہشتگرد کیوں کہا جا رہا ہے؟اختر مینگل نے کہا کہ موسی خیل میں جو واقعہ پیش آیا ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، باقی لوگوں نے بھی مذمت کی لیکن محض مذمت کر لینا مسئلے کا حل نہیں، ہمیں اس مسئلے کی بنیادی جڑوں کو اکھاڑنا ہو گا۔ دوریاں پیدا ہونے کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں، بلوچستان میں پہلے نفرتیں تھیں، اب نفرتوں کے ساتھ ساتھ ضد بھی آ گئی ہیاور جب نفرتیں انتہا کو پہنچ جائیں تو پھر اس میں ضد کا عنصر بھی غالب آ جاتا ہے تو ضد میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اسے غلط کہنا ہی پڑتا ہے۔اختر مینگل نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ کیا موسی خیل میں جو ہوا اس میں حکومت نے یا امن و امان قائم کرنیوالے اداروں نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے؟
لاپتا افراد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ جن 4 نوجوانوں کی لاپتا ہونے کے بعد لاشیں ملی ہیں ان سب کا تعلق میرے حلقے خضدار سے ہے، جب انہیں اٹھایا گیا تو میں نے مقامی انتظامیہ کو رپورٹ کروائی تھی۔اختر مینگل نے الزام عائد کیا کہ ان نوجوانوں کا قتل وزیر داخلہ کے ان بیانات کا تسلسل ہے یا تناظر ہے جن میں وہ موسی خیل کے واقعے پر کئی دنوں سے دھمکیاں دے رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ 1948 میں جو غلط بنیاد رکھی گئی تھی اس کو درست کرنے کے لیے بوٹوں کا استعمال درست نہیں ہے، اس وقت بلوچستان میں جو بغاوت ہے وہ قبائلی زعما کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ قبائلی نہیں ہیں جنہیں بھلا پھسلا کر بات منوا لی جاتی تھی۔
ملک میں بچوں کو جو مطالعہ پاکستان پڑھایا جا رہا ہے اس میں سچائی کم، دروغ گوئی اور جھوٹ99 فیصد ہو تا ہے، ہمیں تو صوبہ بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے، اس وقت جو ہو رہا ہے وہ کسی نوآبادیاتی علاقے میں بھی نہیں ہوتا۔ایک اور سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے میاں نواز شریف کو 4 بار آزمایا، پیپلز پارٹی کو آزمایا، پاکستان تحریک انصاف کو بھی آزمایا، بلوچستان کو انصاف نہیں ملا، بلوچستان کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ کسی مظلوم کی ماں بہن کو نہ رلائیں ہاں ان لوگوں کی ماں، بہنوں کو ضرور رلائیں جنہوں نے آپ کی ماں، بہنوں کو رلایا ہو۔اختر مینگل سے پوچھا گیا کہ یہ تو آپ بلوچستان میں مزید آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو اس کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ مجھے اگر اس ریاست سے کوئی امید ہوتی تو میں بلوچستان کے نوجوان سے کہتا کہ ہتھیار پھینک دو، مت لڑو، میں اس ریاست سے ناامید ہو چکا ہوں، یہ حتی کہ مجھے بھی برداشت نہیں کرتے، میں ممبر اسمبلی رہا،
وزیر اعلی رہا، میں نے ملک کے آئین کے مطابق حلف اٹھایا، میری پوری تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں، میں نے کبھی ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں کی مجھے ساتھیوں نے کہا کہ ان الیکشن میں خلائی مخلوق آپ کو نہیں جیتنے دے گی، میں نے کہا کہ میرا قصور کیا ہے؟ یہ کہا گیا کہ میں بہت تقرریں کرتا ہوں،
کیا میں نے کبھی اپنی کسی تقریر میں پاکستان توڑنے کی بات کی۔ بعد میں 2024 کے الیکشن میں میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔طوتک لاشیں ملنے پر کمیشن کی رپورٹ پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں کارروائی نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ طوتک میں 200 لاشیں ملنے پر کمیشن بنا اس کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی، کور کمانڈر نے ہم سے ملنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو پہاڑوں تک پہنچانے والا کون ہے؟ خواتین کو خود کش بنانے والا کون ہے؟ ہندوستان کے ساتھ کتنی جنگیں ہوئیں، بتائیں کسی نے خود کش حملہ کیا، کوئی پہاڑوں پر گیا، یہ سب ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجائی جائے۔ یہ نظام ہی بھینس بنی ہوئی ہے، جس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ایک اور سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں ٹرننگ پوائنٹ کب کا آ چکا ہے، میں ریاست کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ پہاڑوں میں جا کر ان کو ماریں، ریاست کی ذمہ داریاں بڑی ہوتی ہیں،
ہم نے کبھی کسی بغاوت کی حمایت نہیں کی، میرے گاوں کے نوجوانوں کو مار دیا جاتا ہے، میں انہیں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ اس پر روئیں بھی نہیں، جو میرے بچوں کا قاتل ہے میں اس کے گلے میں ہار نہیں ڈال سکتا، ایسا کوئی سرفراز بگٹی ہی کر سکتا ہے۔