کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے کہا ہے کہ 25اور 26اگست کو پیش آنے والے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جو لوگ ان واقعات کی مذمت نہیں کر رہے اور اپنے آپ کو کنفیوزظاہر کررہے ہیں اورجو لوگ دہشت گردی کی مذمت نہیں کرتے وہ انجانے میں اس کی حمایت یا ہمدردی کرتے ہیں، صوبے میں 4ہزار سے زائد افراد کو قومیت، جاسوسی،غدار ی کے نام پر قتل کیاگیا ہے،
دہشتگردی کے واقعات میں سیکورٹی اداروں سے بھی سوال ہونا چاہیے، بارڈر بند کر کے50لاکھ لوگوں کو بے روزگار کرنے سے بلوچستان کے نوجوان دشمن عناصر کے ذریعے استعمال ہونگے۔
پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیرزراعت حاجی علی مدد جتک نے ایوان میں بخت محمد کا کڑ، حاجی ولی محمد نو رزئی، میر محمد اصغر رند، بر کت علی رند، سنجے کما ر، مینا مجید کی جانب سے مشترکہ مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مو رخہ 25اور 26اگست کی درمیا نی رات کو ملک دشمن دہشت گر دوں کی جا نب سے بلو چستان کے مختلف علا قو ں میں بیک وقت بز د لا نہ، وحشیا نہ اور سفا کا نہ حملے کئے گئے جن میں مو سیٰ خیل کے علا قے راڑہ شم کے مقام پر بلو چستان کو پنجا ب سے ملا نے والی قو می شا ہر اہ پر مسافر بسوں اور ٹر کو ں سے 23نہتے بے گنا ہ اور معصوم شہریوں کو اتار کر بے دردی سے شہید اور35گاڑ یوں کونذ رآتش کیا گیا۔ ان اند و ہنا ک واقعا ت کی پوری د نیا میں مذ مت ہورہی ہے یہ دہشتگر د بچوں کو درغلا کر د ہشت گر دی کر واتے ہیں جس میں ان کے وا لد ین تک کوعلم نہیں ہو تاجسکی مثا ل ما ہل بلو چ کا حا لیہ بیان ہے کہ میں سن کر حیر ت زدہ ہوئی کہ میر ی بیٹی کو دہشت گر دوں نے اپنے مذمو م مقا صد کے لئے استعما ل کیا علا وہ ازیں بی وائی سی آ ئے روز د ھر نے اور احتجا ج کر تے ہٰں اور سو شل میڈ یا پر ٹر ینڈ چلا تے ہیں مگر اتنے مظلوم لو گوں کے قتل جن میں بلو چوں سمیت ہر قو م کے لو گ شال ہیں اس پر خا مو ش ہیں یہ لو گ دہشت گر دوں کی legitmateآواز بنے ہو ئے ہیں انکی ایسی سفا کیت اور دہشت گر دی پر خا مو شی معنی ٰ خیز ہے۔ بلو چستان صو با ئی اسمبلی کا یہ ایو ان دہشت گر د تنظیم بی ایل اے کی اس بز د لا نہ سفا کا نہ اور دہشت گر د انہ اور و حشیا نہ کا ر ائیو ں اور بی وائی سی بلو چ یکجہتی کمیٹی جس کی وجہ سے پورے بلو چستان میں روڈ بلا ک ہو نے سے علا قے کے لو گوں اور مر یضو ں کو ا زیت کا سا منا کر نا پڑا کی شد ید الفاظ میں مذ مت کر تا ہے۔
مز ید بر ا ں سیکور ٹی فورسز اور رقا نو ن نا فذ کرنے والے اداروں نے صو بہ کے مختلف اضلا ع میں مذ کو رہ با لا واقعا ت پر فوری رد عمل شروع کر تے ہوئے کلیر نس آ پر یشن شروع کیا جس کے نتیجے میں ملک د شمن عنا صر اور دشمن ملک کے 21دہشتگر د ایجنٹو ں کو جنم واصل کیا۔ اور اس کاروائی کے دوران سیکورٹی فورسز کے 10جوانوں اور قا نو ن نا فذ کرنے والے اداروں کے 4اہلکا روں سمیت مٹی کے 14بہادر بیٹوں نے بہادری سے لڑ تے ہو ئے لا ز وال قر با نی دی اور شہا دت کو گلے لگا یا اور اس طرح دہشت گردوں کے مذ مو م عز ائم کو کا میا بی سے نا کا م بنا یا خیا ل رہے کہ پوری قو م ہمہ وقت دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں اپنی بہا در افواج،سیکور ٹی فورسز کے شا نہ بشا نہ کھڑ ی ہے۔ لہذ ا بلو چستان اسمبلی کا یہ ایو ا ن سیکور ٹی فورسز اور قا نو ن نا فذ کرنے والے اداروں کے اہلکا روں کی لا ز وال قر با نی اور شہادت پر انہیں خر ا ج تحسین اور خر اج عقید ت پیش کر تا ہے اور متاثر ہ خا ند ا نوں سے دلی ہمد ردی اور تعز یت کا اظہار کر تا ہے اور ساتھ ہی مر کز ی اور صو بائی حکومت سے پر زور مطا لبہ کر تا ہے کہ ان گھنا ؤ نے اور بز د لا نہ کاروئیوں کے لئے اکسا ے والوں مجر موں،
سہو لت کاروں ان کی حو صلہ افز ائی کلر نے والیملک دشمن عنا صر و دہشت گر دوں کو انصا ف کلے کہٹر ے میں لا نے کے لئے فوری عملی اقد ا ماتاٹھا نے کو یقینی بنا ئے۔اپوزیشن کی جانب سے بھی مذمتی قرارداد قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے پیش کی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ نے دونوں قرار داد وں کو کلب اور پورے ایوان کی طرف سے قرار دینے کی رولنگ دی۔ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور بلیدی نے کہا کہ 12اگست کو نیشنل پارٹی کے رکن میر رحمت صالح بلوچ کے بھائی اور ڈپٹی کمشنر پنجگور پر حملہ کیا گیا جس میں ڈپٹی کمشنر شہید اور رحمت صالح بلوچ کے بھائی زخمی ہوئے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 25اور 26اگست کی درمیانی شب پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں کئی لوگ شہید اورزخمی ہوئے قومی شاہراہیں بند کر کے قتل عام کیا گیایہ تاریخ کا ایسا واقعہ ہے
جس میں سفاکیت، بربریت اور انسانیت سوز ی کی تاریخ رقم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے ہماری روایات اور اصولوں کی پامالی اور صوبے کی بد نامی ہوئی باہوٹ کے نام پر بلوچ قوم جانوں کا نذانہ پیش کرتی آئی ہے محنت مزدوری کے لئے آئے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا گزشتہ دو دیہائیوں سے صوبے میں ساڑھے 4ہزار معصول افراد کو قتل کیا گیا جس میں اکثریت بلوچوں کی ہے لوگوں کو کبھی جاسوس، کبھی غذار کہہ کر مارا جاتا ہے اور بد قسمتی سے ہم خاموش رہتے ہیں کبھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ حقوق کی جنگ ہے کبھی کہتے ہیں ان کے ساتھ ذیادتی ہوئی ہے سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور وہ کسی کا نام تک نہیں لیتے اور عجیب و غریب بیانیہ پیش کرتے ہیں کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا وہاں تشددکو دہشتگردی کہا جا تا ہے کسی کو مسئلہ ہے تو آئیں انہیں سنا جائے گا مگر انہیں کسی کا قتل کر نے کی اجازت نہیں دی جائے گی کچھ لوگ کنفیوز ہیں یا جان بوجھ کر اپنے آپ کو کنفیوز کیا ہوا ہے کہ مزدوروں، خواتین کا قتل عام کرنے والوں کو حقوق کے لئے لڑنے والوں کے نام سے پکاریں یا وہ نام جو پوری دنیا سے انہیں دیا ہے اس نام سے پکاریں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بھائی اور بہنوئی کو قتل کیا گیا اس وقت میری جماعت نے اسمبلی میں مذمت تک نہیں کی جبکہ موجودہ وزیراعلیٰ کا شکریہ کہ انہوں نے اس وقت بھی اس واقعہ کی مذمت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب آپ کنفیوژ ہوتے ہیں تواسکا نتیجہ 25اور26اگست کی طرح نظرآتا ہے کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ پنجابی قتل کرنا ثواب کا کا م ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سے الحاق سے متعلق بھی غلط بیانی کی جاتی ہے 1935کی قرارداد کے بعد مکران،لسبیلہ،خاران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جبکہ خان آف قلات نے بھی بعد میں پاکستان سے الحاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف پالیسی دینی ہے جو مظلوم مارے گئے وہ بھی کسی ماں کے بیٹے تھے کس نے ان میں سے جاسوسی اور غداری کی کیا کسی کے سیاسی نظریے کو بندوق کی نوک پر تبدیل یا ختم کردیناچاہئے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ دہشت گردی کی مذمت نہیں کرتے وہ انجانے میں اس کی حمایت یا ہمدردی کرتے ہیں ریاست واضح ہے کہ قتل عام کرنے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکر شہدا کو انصاف دلایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جن کے مسائل ہیں ان سے گفت و شنید سے ڈائیلاگ بھی کیاجاسکتا ہے۔
اجلاس میں حق دو تحریک کے رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن نے کہاکہ لورالائی سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں قتل عام کی مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے تحفظ پر 80ارب روپے خرچ کرتی ہے ڈاکٹر،ٹیچر پر تو تنقید ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام نہیں کرتے لیکن جو لوگ امن و امان قائم نہیں کرسکتے ان سے کیوں سوال نہیں ہوتا کیا آئی جی ایف سی کو معطل نہیں ہونا چاہئے تھا ہم صرف مذمت سے کام چلاتے ہیں اورایس ایچ او کو معطل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ سب بدامنی اسکی وجہ سے تھی عوام کے جان و مال،عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے سیکورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں
چوکیدارپر بھی بات کرنی چاہئے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ یہ ہوتاہے کہ چمن سے لیکر گوادر تک تمام بارڈر بند کردیئے جائیں کیونکہ اس سے پاکستان کو 200ارب کا نقصان ہوتا ہے لیکن اسٹیل مل،پی آئی اے،آئی پی پیز کوئی بات نہیں کرتا 50لاکھ لوگوں کا روزگار بند کریں گے تو نوجوان ”را‘‘ کے ہاتھوں استعمال اوران سے پیسے لیں گے وزیراعلیٰ ہاؤس کے علاوہ حکومت کہیں نظر نہیں آتی 5لاکھ نوجوان منشیات کا شکار ہوگئے ہیں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی میرے حلقے میں مداخلت جاری ہے 5ستمبر کو دھرنا دیں گے گوادر کے فیصلے گوادر کا منتخب رکن ہی کریگابعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس آج(منگل) کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔