کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ مرحوم سردار عطا اللہ مینگل نے ہمیشہ محکوم اور مظلوم قوموں کے اتحاد اور حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کی ہے
اور آج وہ وقت ہے جس میں ان کے اتحاد کو یقینی بناکر طاقتور قوتوں کا مقابلہ کرکے بلوچستان اور پشتونخوا نے بلوچ اور پشتون قوم پر ہونے والے مظالم کا راستہ روکا جاسکتا ہے ہمارے اکابرین نے ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہوئے متحد ہوکر آگے بڑھنے کا کہا ہے کیونکہ 75سالوں میں بلوچستان میں 5 اعلانیہ اور متعدد غیر اعلانیہ آپریشن کرکے بسنے والوں پر مظالم ڈھائے گئے
زور زبردستی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ اس طرح کے اقدامات سے نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا ان خیالات کا اظہار انہوں نے سردار عطا اللہ مینگل کی تیسری برسی کے موقع پر میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار میں منعقدہ تعزیتی جلسہ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عبدالرحیم زیارتوال، عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر اصغر خان اچکزئی، پی ٹی آئی کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ، ملک نصیر احمد شاہوانی، موسی جان بلوچ، جماعت اسلامی کے زاہد اختر بلوچ، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے قادر نائل، نور باچا خان، شعیب شاہین ایڈووکیٹ، میر غلام نبی مری، صمند بلوچ، حوران بلوچ، سہیل اکبر شیرازی سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا
اس موقع پر سابق رکن صوبائی اسمبلی بابو رحیم مینگل، احمد نواز بلوچ، ٹکری شفقت لانگو، حاجی باسط لہڑی، میر وحید لہڑی، چیئرمین واحد بلوچ، چیئرمین جاوید بلوچ، سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ ساجد ترین ایڈووکیٹ،سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی،عبدالرحیم زیارتوال، اصغر خان اچکزئی،داؤد شاہ کاکڑ، ملک نصیر احمد شاہوانی، موسی جان بلوچ، زاہد اختر بلوچ، قادر نائل، نور باچا خان، شعیب شاہین ایڈووکیٹ، میر غلام نبی مری، صمند بلوچ، حوران بلوچ سمیت دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بسنے والے بلوچوں اور دیگر لوگوں کی سائیکالوجی کو سمجھا نہیں گیا اور ان پر زور زبردستی کے ذریعے اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جس کی وجہ سے ایک بار پھر بلوچستان کے حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے ہمارے اکابرین سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، ولی خان، صمد خان شہید سمیت دیگر نے ہمیشہ بلوچ اور پشتون قوم کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے کے لئے جدوجہد کی تاکہ مشترکہ طور پر مظلوم اور محکوم قوموں پر ہونے والے مظالم کے لئے جدوجہد کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے ایک تاریخ رقم کی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ سرزمین ہماری ہے اور اس کے وارث ہم ہیں حکمران اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر اس سرزمین پر خونریزئی اور دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے
جس طرح ماضی سے لیکر اب تک 5 اعلانیہ اور متعدد غیر اعلانیہ آپریشن کئے گئے اور 26 اگست کو ہونے والا واقعہ جس میں لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر انہیں قتل کیا گیا اور گاڑیوں کو جلایا گیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں لیکن اس واقعہ کو بنیاد بناکر پنجاب میں جس طرح تحریک چلائی جارہی ہے کہ بلوچ اور پشتون ظالم ہے اس طرح کے رویہ کو پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے
کیونکہ بلوچستان کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کا راستہ روک کر فارم 47 کے ذریعے بولیاں لگا کر اپنے منظور نظر من پسند لوگوں کو بلوچستان پر مسلط کیا گیا اور اسمبلی میں بھی ایسے لوگوں کو پارلیمانی سیاست کے لئے صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھیجا گیا تاکہ طاقتور قوتیں اپنے ایجنڈے اور مقصد کو پورا کرسکیں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچ اور پشتون قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر طاقتور حلقوں کا راستہ روکنے کے لئے مظلوم اور محکوم لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ روز اول سے ہی ہمارے حقوق کو سلب کیا گیا ہے
سردار عطا اللہ مینگل اور دیگر اکابرین نے ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہوئے بلوچستان اور پشتونخوا وطن کے حوالے سے ایک تاریخ رقم کی ہے اور موجودہ حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہمیں متحد ہوکر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکوم، مظلوم قوموں کے حقوق کے حصول اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف طاقتور قوتوں سے لڑنا ہوگا تاکہ اپنے حقوق کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔
مقررین نے کہا کہ گورے انگریز چلے گئے لیکن کالے انگریز ہم پر مسلط کئے گئے۔ کیونکہ بلوچستان کو قدرت نے سب سے زیادہ وسائل مہیا کئے ہیں اور وہ ظالمانہ طریقے سے ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔قانون کی حکمرانی سے ملک ترقی کرسکتا ہے کیونکہ روز اول سے لیکرآج تک بلوچستان کو نقصان دینے کے علاوہ کچھ نہیں دیا گیا کٹھ پتلیوں کو ہٹاکر حقیقی قیادت کو آگے لائے تاکہ پتہ چلے کہ مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔
اور طاقت سمیت ڈنڈے کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی ناکام کوشش ہوتی رہی ہے وفاقی وزیر داخلہ کو بلوچستان کی حساسیت کا اندازہ نہیں وہ اس لئے مسائل کو مل بیٹھ کر گفت وشنید سے حل کرنے کی بجائے ایک ایس ایچ او کی مار کا دعوی کرتے ہوئے لوگوں میں پائی جانے والی نفرتوں میں اضافہ کررہے ہیں محب وطن لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے اور ان کے لئے آواز اٹھانے والوں کو پابند سلاسل رکھا جارہا ہے۔مقررین نے کہا کہ آج ہم بلوچستان کے قومی راہشون سردار عطا اللہ مینگل کی بلوچستان اور یہاں پر بسنے والوں کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور اپنی زندگی مظلوم اور محکوم قوموں کے مسائل کے حل کیلئے وقف کرکے دیگر اکابرین کے ساتھ ملکر بلوچستان کو اس صورتحال اور مسائل سے چھٹکارا دلانے کے لئے وقف کر رکھی تھی
اور ہمیں ان کے مشن پر عمل پیرا ہوکر مسائل کے حل کو یقینی بنانا ہے مقررین نے سردار عطا اللہ مینگل کو مظلوم اور محکوم قوموں کے حقوق کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور دی جانے والی قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت ہے کہ ہم نے متحد ہوکر ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے کیونکہ جس طرح ہمیں آپس میں تقسیم کرکے ہر محاذپر کمزور کیا جارہا ہے ہم نے متحد ہوکر اپنی طاقت کو مزید مضبوط بنانا ہے تاکہ مسائل کے حل کو یقینی بنایا جاسکے۔
بلوچ قومی راہشون مینار بلوچ بزرگ سیاستدان و سابق وزیر اعلی بلوچستان مرحوم سردار عطااللہ خان مینگل کے تیسری برسی کے موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع خضدار و بلوچستان نیشنل پارٹی تحصیل وڈھ کے زیر اہتمام مشترکہ تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا تعزیتی ریفرنس بلوچستان نیشنل پارٹی جمعیت علما اسلام اور نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے خطاب کیا تعزیتی ریفرنس سے بلوچستان نینشل پارٹی کے مرکزی پبلیکیشن سیکرٹری ڈاکٹر عبدالقدس بلوچ مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری واجہ لال جان بلوچ بلوچستان نیشنل پارٹی ضلع خضدار کے نائب صدر نور احمد مینگل نیشنل پارٹی ضلع خضدار کے صدر عبدالحمید ایڈوکیٹ بلوچ۔جمیعت علمائے اسلام خضدار کے ناظم انتخابات طلحہ قمر جمیعت علمائے اسلام تحصیل وڈھ کے امیر جسٹس ریٹائرڈ عبدالقادر مینگل جنرل سیکرٹری مولانا عبدالصبور مینگل سردار زادہ منیر جان مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی خضدارکے جنرل سیکرٹری عبدالنبی بلوچ بی این پی وڈھ کے سابق صدر میر عبدالسلام شاہیزئی مینگل بی این پی تحصیل وڈھ کے صدر مجاہد عمرانی بی این پی خضدار کے سابق نائب صدر حیدر زمان بلوچ سمیت دیگر رہنماوں نے خطاب کیا مقررین تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ سردار عطااللہ خان مینگل ایک سیاسی شخصیت نہیں بلکہ ایک علمی یونیورسٹی تھا سردار عطااللہ خان مینگل نے بلوچستان بالخصوص دنیا کے حوالے سے بلوچ قوم کو متعارف کرایا سردار عطااللہ خان مینگل کی جدوجد قربانیاں روزے روشن کی طرح عیاں ہیں سردار عطااللہ خان مینگل کی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت بلوچ قوم آج دنیا کے سامنے اپنی پہچان اور شناخت رکھتی ہے انہوں نے کہا کہ سردار عطااللہ خان مینگل کی زندگی نوجوان کے لیے ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے انہوں نے 1956 میں سیاست کا آغاز کیا انہوں نے اپنے قبائل کے مشکلات کی خاطر ان کی مدد سے وڈھ اور خضدار کے درمیان ایک سڑک بنائی تھی یہاں سے انہوں لوگوں کی درد محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اپنی زندگی کے عیاشیوں کو ترک کر کے بلوچ قوم کے لیے وقف کیا انہوں نے مظلوم طبقات کے لیے آواز بلند کی اور بلوچ پشتونوں قوم کے درمیان نفرتوں کو ختم کر کے دونوں برادر اقوام کو اہم پیغام دیا جو آج بھی قائم ہے سردار عطا اللہ خان مینگل ایک سچے لیڈر اور رہبر تھے جو زندگی بھر ایک نظریے اور سوچ پر قائم رہے انہیں جھکانے کے لیے ان کے نوجوان فرزند کو اغو کیا گیا مگر وہ اپنے نظریہ پر قائم رہے سردار عطا اللہ خان مینگل اپنی زندگی کے 23 سال جیل اور جلاوطن میں گزارے ایک دفعہ مفتی محمود نے جنرل ضیا الحق سے سردار عطا اللہ خان مینگل کے فرزند کے بارے معلوم کی کہ وہ کہاں ہے مگر ایک ہفتے بعد جنرل ضیا الحق نے کہا کہ سردار عطا اللہ خان مینگل کو کہے وہ اپنے فرزند کے لیے تعزیت وصول کریں مقررین کا کہنا تھا کہ حقیقتا دیکھا جائے سردر عطا اللہ خان مینگل پاکستان کے علاوہ دنیا کے ایک عظیم لیڈرز تھے انہوں نے مظلوم طعبقات کے لیے اپنی زندگی وقف کی تھی ون یونٹ کے خاتمے اور بلوچستان صوبے کی حثیت دینے میں سردار عطا اللہ خان نے اہم کردار ادا کیا تھا جنرل ایوب خان کا مارشلا جو ابھی تک چلا آرہا ہے ہمارے بزرگوں کو پھانسیاں دی گئی جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے سن 1973 کے بغاوت کی وجہ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے ووٹ کے عزت حق خود مختیاری مظلوم طبقات کے لیے جدوجہد کے لیے تھا سردار عطا اللہ خان مینگل کی زندگی کی بلوچ نوجوانوں کے مشعل راہ ہے نوجوان سردار عطا اللہ خان مینگل کی زندگی کو پڑھے انہوں نے کہا کہ 1958 کے غلط پالیسیوں کو ابھی تک جاری رکھا گیا ہیحکمران بلوچستان کے مسلے کو سیکیورٹی کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں جس سے حالات ٹھیک ہونے کے بجائے مذید خراب ہورہے ہیں بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس مسلے کو سیاسی ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے بلوچ قوم کو آج جن چیلنجز درپیش ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔