حکومت سمیت اپوزیشن کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں بیانات کی حد تک ملک کی موجودہ صورتحال پر بات چیت پر متفق دکھائی دیتی ہیں کہ حالیہ سیاسی، معاشی بحران سمیت امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر ہمیں ساتھ بیٹھنا چاہئے مگر عملًا مذاکرات کے حوالے سے ماحول بنتا دکھائی نہیں دیتا ۔
حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں طرف سے ایک بیان نہیں دیا جاتا، ایک دن مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو دوسرے دن اس کی تردید کی جاتی ہے ۔
اگر دونوں جانب سے مذاکرات کے حوالے سے سنجیدگی ہوتی تو شاید اب تک سیاسی کشیدگی میں کمی آچکی ہوتی اور تھوڑی بہت پیش رفت بھی نظر آتی۔
بہرحال ایک بار پھر وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں سے غیرمشروط مذاکرات چاہتے ہیں۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سردار اختر مینگل کا کل استعفیٰ دے کر آج واپس لینا ان کیلئے مشکل ہوگا، ایسی چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مینیج ہوتی ہیں، اس پرمتفق ہیں کہ بلوچستان کے معاملات کواولین ترجیح سمجھ کر حکومت اور متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی 99.99 فیصد آبادی محب وطن، آئین اور قانون پر یقین رکھتی ہے ان سے علیحدہ برتاؤ ہونا چاہیے، اختر مینگل کے گلے شکوے سنے اور یقین دہانی کرائی ہے ان کی پارلیمنٹ میں موجودگی بلوچستان کیلئے بڑی اہم ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے قائدین کہتے ہیں کہ پشتون خواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو بانی پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا مینڈیٹ دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کا آغاز کیسے اور کس طرح کیا جائے ، کوئی خاص ملاقاتیں بھی نہیں ہوئی ہیں جس پر کہا جائے کہ مذاکراتی عمل شروع ہوچکا ہے اپوزیشن خاص کر پی ٹی آئی کی جانب سے متضاد بیانات زیادہ سامنے آتے ہیں کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا کہتے ہیں تو کبھی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں ۔ بہرحال اس تمام صورتحال کی وجہ سے ملک میں سیاسی، معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے جبکہ امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہے جس کی وجہ سے ملکی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ بالکل ایک الگ معاملہ ہے اس پر ڈائیلاگ کیلئے بلوچستان حکومت، صوبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر وفاقی حکومت روڈ میپ تیار کرے اور گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف جائے تاکہ بلوچستان میں موجود سیاسی مسائل کا حل نکالا جائے۔
اسی طرح ملک بھر میں سیاسی، معاشی، امن و امان کے مسائل پر اے پی سی بلانے کیلئے حکومت پہلے ایک کمیٹی تشکیل دے جو تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے تاکہ سیاسی ماحول جو کشیدہ ہے اس میں ٹھہراؤ آئے اور مذاکرات کا ماحول بن سکے ،محض بیانات کے ذریعے ملکی مسائل حل نہیں ہونگے اس میں حکومتی اتحاد سمیت اپوزیشن جماعتوں کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مشکل حالات سے نکلنے کے راستے کھل سکیں۔