کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں آئین اور قانون کانفاذ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے
حکومت کی جانب سے طلباء رہنمائوں ، سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی ، اساتذہ کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔
اظہار رائے آزادی، سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی عمل سے وابستگی ممنوعہ قرار دی گئی ہے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس، و سیمینار کو این او سی سے مشروط کرنا انتہائی گھنائونا عمل ہے جس کی نظیر کہیں بھی نہیں ملتی ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اس موقع پر دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔
انہوں نے گزشتہ روز بی ایس او کے منعقدہ اجلاس کے فیصلوں بارے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ اراکین نے آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے پر مختلف پروگراموں کی منظوری دی ہے اور موجودہ سیاسی صورتحال بلوچستان کے تعلیمی مسائل ، تنظیمی امور و آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے اور موجودہ صورتحال پر غور خوض کیا گیا ۔
بلوچستان میں ناقص تعلیمی نظام، اداروں کی زبوں حالی پر شال میں گول میز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیااور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سی سی ممبر اورنگزیب بلوچ کو معطل کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے
تمام زونوں کی جنرل باڈی کا اجلاس منعقد کرنے اور تنظیمی اسٹریکچر کو مزید فعال بنانے کی بھی منظوری دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگا کر پریس کلب کو تالا لگاکر لوگوں کی آواز دبانا چاہتے ہیں بلوچستان میں میڈیا مکمل کنٹرول اور زیر عتاب ہے جبکہ ہر فرد کی بولنے لکھنے پر پابندی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر امن سیاسی جہد کاروں کو ہمیشہ ہی سے سنگین الزامات ٹرولنگ جعلی ایف آر اور دھمکیوں کا سامنا تھا جبکہ اب اساتذہ کو بھی مشکوک لسٹ میں ڈال کر ان کی نگرانی کی جارہی ہے جو آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر امن سیاسی جہد کاروں کو ہمیشہ ہی سے سنگین الزامات ، ٹرولنگ جعلی ایف آر اور دھمکیوں کا سامنا تھا جبکہ اب اساتذہ کو بھی مشکوک لسٹ میں ڈال کر ان کی نگرانی کی جارہی ہے جو آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نظام تعلیم کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے انتظامی کرپشن، ناقص منصوبہ بندی اور سفارشی کلچر نے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے ہائیر ایجوکیشن کے نام پر بنائے ادارے مکمل دیوالیہ ہوچکے ہیں
جامعات میں اساتذہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہے جبکہ مکران میڈیکل کالج کے اسٹاف کی جانب سے کئی دنوں سے احتجاج ہے حکومتی غیر سنجیدگی اور تعلیم کے ساتھ بھونڈے مذاق سے کلاسز نہیں ہورہے ہیں تمام جامعات کے فیسوں میں بے جا اضافہ کردیا گیا ہے
جس سے طلباء مشکلات کا شکار ہیں۔
شہید سکندر یونیورسٹی خضدار مکمل غیر فعال ہے جبکہ رخشان و نصیر آباد یونیورسٹی کے قیام میں دانستہ طور پر تاخیر کی جارہی ہے رخشان اور نصیر آباد بلوچستان کے وسیع ریجن میں شمار ہوتے مگر اب تک اعلیٰ تعلیمی ادارے سے محروم ہیں۔
کوہلو گرلز کالج کا قیام 2007ء کو عمل میں لایا گیا کلاسز کا اجراء اساتذہ کی تعیناتی نہیں ہوسکتی ہے۔