کوئٹہ(یو این اے ) بی این پی سربراہ وبلوچستان کے سابق وزیر اعلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ مجھ سے استعفی واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والوں کو پارلیمنٹ سے گرفتار کیے جارہے ہیں
جو قابل مذمت ہے جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں واضح کیا تھا کہ بلوچستان کے تین سرداروں کے علاوہ 73سردار میرے ساتھ ہیں میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا ان سرداروں کے علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہے یا وہ بھی دربدر ہے بلوچستان کے سرداروں کو الزام دینے والوں کے لیے یہ کافی ہے
کہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کا قیام نیب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے پہاڑوں پر جانے والوں کو اگر بیرونی سپورٹ حاصل ہوتی تو حکومت ریکورڈ ک کی طرح کیوں بین القوامی عدالتوں میں روجوع نہیں کرتا بلوچستان کے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے ،مسخ شدہ لاشوں کو ذمہ داروں کوسزا اور سیاسی جماعتوںمیں مداخلت اور انتخابات میں من پسند افراد کو لانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ان خیالات کا اظہار انہوں نے معروف یو ٹیوبر کے پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا سردار اختر مینگل کا کہنا تھا
کہ میرے پارلیمنٹ سے استعفی کا نہ میرے خاندان والوں اور نہ ہی میرے پارٹی والوں کو معلوم تھا میرا خیال تھا کہ میں پارلیمنٹ میں اپنے استعفی سے قبل قوم کو ان تمام حقائق سے آگاہ کروں گا جس کی بنا پر میں مایوس ہوکر استعفی دے رہاہوں لیکن شاید ہمارے حکمرانوں اور ان کے اداروں کو میرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے پارلیمنٹ اجلاس میں ایک ایک کر کے کورم کی نشاندہی کردی جس پر میرے دل کی بھڑاس اور قوم کو پارلیمنٹ میں حقائق بتانے کا خواب ادھورا رہ گیا انہوں نے کہا کہ 13ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں میرے استعفی کے حوالے سے غور ہوگا لیکن پھر بھی میں اپنے استعفی کو واپس نہیں لوں گا چاہیے اس کے لیے پارٹی مجھے سزا کیوں نہ دے بلوچستان کے معدنیات کے حوالے سے پوچھے گئے
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے لیے سوئی سدرن گیس ہو ریکورڈک ہو تیل ہو یا سیندک اس کے فوائد کوئی اور لے رہا ہے جبکہ مشکلات ہمارے لیے پیدا کی جارہی ہے ریاستی اداروں کے حوالے سے میں پشتو کا ایک مشہور معقولہ نقل کرتا ہوں “کہ بندق میرا قانون ہے “ہمارے وسائل پر ہمارا حق کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا پوری دنیا میں یہ قانون ہے
کہ جہاں سے معدنیات نکلتے ہیں وہاں کے لوگوں کو سب سے پہلے اس کے فوائد مل جاتے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام اس حق سے اب تک محروم رہی ہے اس لیے تیل کے ذخائر پر بلوچستان کی عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر مجھے اختیار دیا جائے تو میں تین مطالبات پر عملدرآمد کی بات کروں گا ان میں پہلا مطالبہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ،مسخ شدہ لاشوں کے ذمہ دار افراد کو ملٹری یا سول کورٹ سے سزائیں دینا اور شفیق مینگل کی طرح ذاتی ملیشیا بنانے والوں کے خلاف کاروائی کرنا مجھے معلوم ہے کہ حکومت میری یہ تینوں باتیں کبھی بھی نہیں
مانے گی کیونکہ سٹیبلشمنٹ پرائیوٹ ملیشیا کو اپنی طاقت سمجھتا ہے جن سے وہ لگوں کو دھمکاتے اور ان کو خاموش کراتے ہیں انہوں نے کہا کہ گوادر تربت اور پنجگور میں تو سرداری نظام نہیں پھر کیوں لوگوں کو وہاں سے لاپتہ کیا جاتاہے انہوں نے کہا کہ اب تو طاقتور ادارے انتخابات میں بھی اپنے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کو منتخب کرکے لاتے ہیں
اور ان سے اپنے کام نکال لیتے ہیں اس لیے میں نے پارلیمنٹ سے استعفی دیدیا کیونکہ بلوچستان کے عوام کی بات سننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا