کوئٹہ : صوبائی وزیر آبپاشی میر محمد صادق عمرانی ، صوبائی وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے اس کو مسترد کیا ہے
بلوچستان اسمبلی بھی اس قرار داد کی حمایت کرے گی اس کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے پانی کے مسائل مشترکہ ہے اور باہمی مشاورت سے معاملات کے حل کو یقینی بنانا چاہتے ہیں حب ڈیم سے سندھ پر واجبات کے حصول اور دیگر مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے مابین پانی کے مسئلے کے حل کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا اس موقع پر صوبائی وزراء میر ظہور احمد بلیدی، میر عاصم کرد گیلو،
ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی، عبدالمجید بادینی، صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند، وزیر اعلیٰ کے پریس سیکرٹری شیخ عبدالرزاق اور دیگر بھی موجود تھے۔ میر صادق عمرانی نے کہا کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ اور بلوچستان کے پانی کے مسائل کے حوالے سے یہ میٹنگ منعقد ہوئی ہے جس طرح سندھ نے ارسا کے حوالے سے اپنا موقف اختیار کیا ہے بلوچستان کا بھی یہی موقف ہے اور دونوں صوبوں نے مشترکہ طور پر موقف اختیار کیا ہے کیونکہ ارسا ایکٹ میں کی جانے والی وفاقی حکومت کی ترمیم کو سندھ حکومت نے اسمبلی کے ذریعے مسترد کیا ہے اور بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کی قرار داد کی حمایت کیلئے قرار داد پیش کی جائے گی جس کا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے کیونکہ سندھ بلوچستان کا بڑا بھائی ہے اور ہم دونوں ملکر اپنے مسائل حل کریں گے۔
صوبائی وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے کہا کہ وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نیا قانون ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے جسے سندھ اور بلوچستان مسترد کرتے ہیں ارسا ایکٹ میں ترمیم کو سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے مسترد کردیا سندھ اور بلوچستان ارسا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں جس طرح سندھ نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ایک روز قبل ارسا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کیا ہے انہوں نے بتایا کہ پہلے واپڈا پانی کی تقسیم کرتا تھا
صوبوں کو اس تقسیم پر اعتراض تھا جس کے بعد 1991ء میں ارسا ایکٹ بنایا گیا اور صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پانی کی تقسیم کو یقینی بنائیں انہوں نے کہا کہ ارسا ایکٹ کا قانون کہتا ہے کہ صوبے خود اپنے پانی کے مالک ہیں ارسا ایکٹ میں ترمیم اٹھارویں ترمیم کی نفی ہے ارسا کا خاتمہ صوبائی خودمختاری اور آئین پر وار ہے ایکٹ میں ترمیم صوبائی اسمبلیوں پر عدم اعتماد ہے پرپوزل آنا جمہوری حکومت میں بری چیز نہیں لیکن یہ آئین سے متصادم ہے سندھ کو ارسا ایکٹ کے مطابق پانی نہیں ملتا اس کا اثر بلوچستان پر بھی پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ ارسا ایکٹ کی موجودگی کا سیٹ اپ کہتا ہے
کہ چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے چیئرمین باری باری تعینات ہوںگے۔ وفاقی حکومت کی تجویز میں چیئرمین کیلئے گریڈ 21-22 کے آفیسر کو تجویز کیا گیا ہے ارسا معاہدے کو ختم کرکے افسر شاہی کے حوالے کرنا اٹھارویں ترمیم پر وار ہے ، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں ہر سطح پر اس مجوزہ ترمیم کو مسترد کرتی ہیں یہ ترمیم صوبائی ترمیم کے خلاف ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ارسا ایکارڈ کے مطابق تمام صوبوں کو پانی کے مقدار کا طریقہ کار متعین کیا گیا ہے
جس میں پنجاب، سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان کا حصہ مختص کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اس ایکارڈ کے مطابق 10 فیصد پانی سمندر کے لئے مختص ہے کیونکہ سمندر کا کھارا پانی ہونے کی وجہ سے سندھ کی تقریباً 22 لاکھ ایکڑ اراضی سمندر کا حصہ بن چکی ہے انہوں نے کہا کہ 3 ٹیر کا فارمولا مشرف کے دور میں لاگو کیا گیا تھا
جس کا ارسا سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کوئی ارسا کے ریکارڈ میں موجود ہے ایک سوال کے جواب میں صادق عمرانی نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے مسائل پانی کے حوالے سے مشترکہ ہے اس کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ حب ڈیم کے پانی کے واجبات اور دیگر مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔