|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2024

بلوچستان کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے مطابق بلوچستان میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان پایا جاتا ہے اور لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کا رجحان زیادہ ہے۔
بلوچستان کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کم عمری کی شادیوں کے رجحان کے باعث زچگی میں اضافے کے ساتھ بچوں کی اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ایک محتاط تجزیے کے مطابق 15 سال سے کم عمر میں شادیوں کی شرح 12.5 فیصد اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کی شرح 45 فیصد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ رجحان کم اقتصادی شراکت داری اور تعلیمی مواقع سے محرومی کو جنم دیتا ہے اور یہ صورتحال صنفی تشدد کا بھی باعث بنتی ہے۔
شادی کی کم از کم عمر 18 سال تک محدود کرنا اور اس سے کم عمر میں شادی کی حمایت کرنے والے روایتی اصولوں کی ممانعت کرنا لازمی ہے۔
ویسے بھی ملک بھر میں کم عمری میں شادی ایک بڑا چیلنج بنتی جارہی ہے خاص کر دیہی علاقوں میں اس کا رجحان زیادہ ہے جس سے کم عمر بچیوں پربہت بڑی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جس سے ان کی زندگیوں کوبھی شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی ایک بڑی وجہ ناخواندگی ہے اور دوسرا موثر قانون سازی کانہ ہونا ہے۔
بلوچستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح بہت زیادہ ہے کیونکہ ماں اور بچے کی صحت بہت کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جلد ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
بلوچستان میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کے تدارک، ماں اور بچے کی غذائیت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اس کیلئے قانون سازی کے ساتھ آگاہی مہم بھی لازمی ہونی چاہئے جس میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، علمائے کرام سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا کردار ادا کریں کہ کم عمری میں بچیوں کی شادی سے نہ صرف ان کی جان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنا بہتر مستقبل بنانے سے بھی رہ جاتے ہیں ،جو عمر پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے اس عمر میں شادی سے ان کا پورا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ حکومت بلوچستان، اراکین اسمبلی قانون سازی کے ذریعے بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں جو کہ اس وقت کی اشد ضرورت ہے۔