|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2024

  اسلام آباد: سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایکسٹنیشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے، ہمیں یاد ہے کس طرح ہاتھ مروڑ کر ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرائی گئی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں انہوں ںے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پیش آئے واقعے کی مذمت کرتا ہوں، ساتھیوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اسپیکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر حق تو یہ تھا اس واقعے کے بعد ایوان کو تین دن کیلئے بند کردیا جاتا۔

انہوں ںے کہا کہ آج کے پی کے میں پولیس نے دھرنا دیا ہوا ہے، لکی مروت، بنوں، ڈی آئی خان میں پولیس احتجاج پر ہے، اگر پولیس نے فرائض ادا کرنا چھوڑدیے تو کیا ہوگا ملک کا؟

 

ان کا کہنا تھا کہ ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں ملک کیلئے نہیں ایکسٹیشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے، یہ روایات ٹھیک نہیں ہم اپوزیشن ہیں اور غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالیں گے، آج پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہم کسی کی ایکسٹیشن کی تائید کیوں کریں گے؟

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہوچکا ہے، جتھوں کو ختم کریں اور پارلیمنٹ کا مضبوط بنائیں، عدالتیں سیاسی گروہ بن چکی ہیں، کوئی عدالتیں کسی کو سپورٹ کرتی ہیں کوئی کسی کو، حکومت کو کہوں گا عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں، اپوزیشن کے ساتھ مل کر اصلاحات لائی جائیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ فوج اور عدلیہ میں معیار ایک لایا جائے، ہمیں یاد ہے کس طرح ہاتھ مروڑ کر ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرائی گئی۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتواء پڑے ہوئے ہیں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آئینی معاملات کیلئے الگ عدالتیں بنائی جائیں؟ آج ملک میں انگریز دور کا عدالتی نظام چل رہا ہے، اعتماد کو بحال کرنا پرے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آج کوئی بات کریں تو توہین عدالت ہوجائے گی، بلوچستان پر بات کریں تو ایجنسیاں آجاتی ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ وہ تو ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ہم فوج اور عدلیہ کے خلاف نہیں بول سکتے لیکن میرے پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ سے گرفتار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے لیے پارلیمان اور جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہونا چاہیے، عدالتی اصلاحات ہونی چاہئیں، اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر اصلاحات ہونی چاہئیں۔

انہوں ںے کہا کہ انیسویں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کو بلیک میل کیا گیا، انیسویں آئنی ترمیم کیلئے ایک جج نے پارلیمان کو بلیک میل کیا انیسویں آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے۔