|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2024

افغان طالبان حکومت کے حوالے سے پاکستان کی ریاست کو دہشت گردی کے واقعات پر شدید تحفظات ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے، اس حوالے سے افغان حکومت کو ثبوت بھی پیش کئے گئے ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آرہی ۔ حکمرانوں اور دفتر خارجہ کی جانب سے مثبت تعلقات برقرار رکھنے کیلئے رویوں میں تبدیلی پر بھی زور دیا گیا ہے ۔
بہرحال ریاست اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے حوالے سے پڑوسیوں سمیت دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کیلئے خود روڈ میپ بناتی ہے ،تمام تر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے بوقت ضرورت اعلیٰ سطحی وفود بھیجے جاتے ہیں جس کا مکمل اختیار وفاق کے پاس ہوتا ہے مگر گزشتہ دنوں خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکومت کی تمام تر پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود براہ راست افغان حکومت سے بات چیت کا اعلان کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پشاور میں بار کونسلز ایسوسی ایشنز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے پاس مجھے وفد بھیجنے دیں، افغان ہمارے پڑوسی ہیں، ہم ایک زبان بولتے ہیں اور ہماری 1200 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے۔
مجھے ان سے بات کرنے دیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔
آپ کوپروا ہ ہی نہیں ہے کیونکہ خون میرا بہہ رہا ہے، کیا میرا خون پانی ہے؟ کیا میرے لوگوں کا خون لال نہیں سفید ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا میں کب تک برداشت کروں گا؟ میں یہاں اعلان کرتا ہوں کہ آپ کی اپنی پالیسی ہے تو اس کو اپنے پاس رکھیں، جس پالیسی کی وجہ سے میرے لوگ مر رہے ہیں۔
میں خود افغانستان سے بات کروں گا، میں بحیثیت صوبہ بات کروں گا، وفد بھیج کر ملاقات کروں گا، ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کروں گا اور مسئلہ حل کروں گا، میں یہ جانیں بچاؤں گا کیونکہ یہ مجھ پر فرض ہے۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان وفاق پرحملہ ہے اور کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا۔
یہ ان کے چار روز پہلے کے خطاب کا تسلسل ہے، جس راستے پروہ چل رہے ہیں اوراپنی پارٹی کوچلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ زہر قاتل ہے۔
بہرحال خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اس سے قبل بھی وفاقی حکومت اور اداروں کے خلاف بیانات دیتے آرہے ہیں جو پی ٹی آئی کی پالیسی کا حصہ ہے کہ آئے روز ایک نیا شوشا چھوڑا جائے مگر بات یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور صرف ایک صوبے کے ایگزیکٹیو ہیں اور انہیں صوبے کے گورننس، امن و امان پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔
گزشتہ چند دنوں سے کے پی کے میں پولیس سراپا احتجاج ہے مگر ایک روز کیلئے بھی وزیراعلیٰ کے پی کے نے کسی اعلیٰ پولیس افسر کے ہمراہ جاکر پولیس اہلکاروں سے ملاقات کی زحمت تک نہیں کی کہ ان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کے تحفظات سنتے اور اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے وفاق کے سامنے مسائل رکھتے ۔چونکہ یہ پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں بلکہ سیاسی انتشار اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرکے تمام تر توجہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی طرف مرکوز کرنا ہے۔
گزشتہ 12 سالوں سے خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن وہاںگورننس انتہائی خراب ہے، امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے، ترقیاتی منصوبوں میںبڑے پیمانے پر کرپشن کے اسکینڈل بھی سامنے آئے ہیں ۔
جہاں توجہ دینی چاہئے وہاں کچھ نہیں کیا جارہا ،اشتعال انگیزی کی سیاست کرکے مزید عدم استحکام کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
جہاں تک افغان حکومت سے بات چیت کا معاملہ ہے تو افغان حکومت بخوبی جانتی ہے کہ علی امین گنڈا پور کا مینڈیٹ کیا ہے لہذا پی ٹی آئی اپنی سیاسی پالیسی کو سامنے رکھ کر حقیقی مسائل سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے روز ایک نیا بیان داغ کر توجہ حاصل کرنا چاہتی ہے جس کا نقصان وہ اب تک اٹھاتی آرہی ہے جبکہ پی ٹی آئی خود اپنی ایک پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے دھڑوں میں تقسیم ہے۔