واشنگٹن: ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے وہیں مختلف، نت نئی اور منفرد ایجادات سامنے آرہی ہیں، جن کا مقصد ان ایجادات سے انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے 2 طالب علموں نے قوتِ گویائی سے محروم افراد کے لیے ایسے دستانے ایجاد کیے ہیں جن سے سامنے والا فرد اشاروں کی زبان کو آواز کے ساتھ ساتھ تحریر کی صورت میں بھی سمجھ سکتا ہے۔
یہ دستانے یونیورسٹی آف واشنگٹن کے طالب علموں نے میسی چوسٹس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں ہونے والے سالانہ ٹیکنالوجی مقابلے ‘لیملسن-ایم آئی ٹی اسٹوڈنٹس پرائز’ کے لیے پیش کیے، جنھیں سال کی بہترین ایجاد قرار دے کر 10ہزار ڈالر انعام سے نوازا گیا۔
قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے خصوصی دستانے—۔
ان دستانوں کے خالق یونیورسٹی آف واشنگٹن کے طالب علم تھامس پرائر اور نوید آزودی ہیں۔ تھامس یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ ریسرچر اور سافٹ وئیر انجینئرنگ میں 30 طالبعلوں کی ٹیم کی رہنمائی کرتے ہیں، جبکہ نوید آزودی مختلف سماجی سوسائٹیز سے منسلک ہیں اور انہوں نے ‘ناسا’ اور ‘ایپل’ جیسی نامی گرامی کمپنیوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان طالب علموں کے مطابق اس سے قبل اشاروں کی زبان کا ترجمہ کرنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی اور اس ایجاد سے 7 کروڑ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ ان دستانوں کا نام ‘سائن الاؤڈ’ رکھا گیا ہے، جو امریکی ‘سائن لینگویج’ (اشاروں کی زبان) کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں اور یہ ‘سائن لینگویج’ استعمال کرنے والا ہر فرد ان دستانوں کو باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔ دستانوں پر موجود سینسرز ہاتھ کی پوزیشن اور حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر یہ ڈیٹا بلوٹوتھ کے ذریعے ایک کمپیوٹر میں جاتا ہے جہاں وہ اس حرکت کو منتخب کردہ الفاظ یا آواز کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ واقعی یہ ایجاد قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ویڈیو یہاں دیکھیں:
قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے خصوصی دستانے—۔
ان دستانوں کے خالق یونیورسٹی آف واشنگٹن کے طالب علم تھامس پرائر اور نوید آزودی ہیں۔ تھامس یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ ریسرچر اور سافٹ وئیر انجینئرنگ میں 30 طالبعلوں کی ٹیم کی رہنمائی کرتے ہیں، جبکہ نوید آزودی مختلف سماجی سوسائٹیز سے منسلک ہیں اور انہوں نے ‘ناسا’ اور ‘ایپل’ جیسی نامی گرامی کمپنیوں کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان طالب علموں کے مطابق اس سے قبل اشاروں کی زبان کا ترجمہ کرنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی اور اس ایجاد سے 7 کروڑ افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ ان دستانوں کا نام ‘سائن الاؤڈ’ رکھا گیا ہے، جو امریکی ‘سائن لینگویج’ (اشاروں کی زبان) کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں اور یہ ‘سائن لینگویج’ استعمال کرنے والا ہر فرد ان دستانوں کو باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔ دستانوں پر موجود سینسرز ہاتھ کی پوزیشن اور حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر یہ ڈیٹا بلوٹوتھ کے ذریعے ایک کمپیوٹر میں جاتا ہے جہاں وہ اس حرکت کو منتخب کردہ الفاظ یا آواز کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ واقعی یہ ایجاد قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ویڈیو یہاں دیکھیں: