|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2016

جس وقت انہوں نے پاکستان نیوی میں شمولیت اختیار کی تو لیفٹننٹ ذکیہ جمالی کو اپنے کیرئیر کی سمت کے حوالے سے کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہوا تھا، صوبہ بلوچستان کی واحد خاتون کمیشن نیول آفیسر کی حیثیت سے پاکستانی بحریہ کے اعلیٰ طبقے میں شمولیت کے امکانات ایک ایسی نوجوان لڑکی کے لیے دور دراز کا خواب لگتا تھا جو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں پلی بڑھی ہو۔ یفٹننٹ ذکیہ جمالی کے لیے یہ بچپن کا خواب تھا جس کی تعبیر سامنے آگئی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی مسلح افواج کی دلدادہ تھیں، وہ یاد کرتی ہیں ” میں نے سائنس کے مضامین میں انٹرمیڈیٹ صرف فوج میں شمولیت کے لیے کیا مگر چھوٹے قد کی وجہ سے پاک فضائیہ کی جانب سے مجھے مسترد کردیا گیا”۔ تاہم لیفٹننٹ ذکیہ جمالی جو زندگی میں سامنے آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم تھیں، نے اپنے خوابوں سے دستبرداری اختیار نہیں کی اور بعد ازاں نیوی کے لیے اپلائی کیا۔ وہ اپنے مستحکم ارادے کا سہرا اپنے والد نیاز محمد جمالی کے سر باندھتی ہیں جو ستر کی دہائی میں ذکیہ کے آبائی قصبے کے بانی ماہر تعلیم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نیاز محمد جمالی نے ذکیہ اور ان کی چاروں بہنوں کے اندر تعلیم کے حصول کے لیے حوصلہ افزائی کی اور اب ان کی بہنیں حکومتی اداروں میں پڑھا رہی ہیں، یہ کیرئیر کا وہ راستہ ہے جو ابتدا میں لیفٹننٹ ذکیہ جمالی نے بھی اپنایا۔ بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ سے اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ذکیہ جمالی نے اوستہ محمد ہائی اسکول میں بطور اردو ٹیچر شمولیت اختیار کی مگر ان کی زندگی میں مختلف موڑ اس وقت آیا جب ذکیہ کو پاکستان نیوی کے ملازمتوں کے اشتہار کے بارے میں علم ہوا۔ وہ بتاتی ہیں ” جب نیوی کی جانب سے اردو میں ماسٹر کرنے والوں کے لیے ایک اسامی کا اعلان کیا گیا تو میں نے فوری طور پر درخواست جمع کرادی”۔ لیفٹننٹ ذکیہ جمالی بتاتی ہیں کہ ان کا نیول اکیڈمی کا حصہ بننے کا سفر اعصاب شکن تھا، اس کے لیے نہیں کہ اس میں امیدوار کو چننے کا عمل کافی سخت ہے بلکہ ان کی والدہ اس وقت کینسر کا سامنا تھا اور ان کے لیے حالات سے نمٹنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ دن جب ذکیہ کو انٹر سروسز سلیکشن بورڈ کی جانب سے انٹرنس ٹیسٹ کے لیے طلب کیا گیا، ان کی والدہ کوما میں چلی گئیں، ان کو تین دن بعد ہوش آیا اور لیفٹننٹ ذکیہ جمالی نے انہیں وہ خط دکھایا ” میری والدہ کے حواس مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے مجھے اپنا خواب پورا کرنے کی اجازت دی”۔ بدقسمتی سے ذکیہ جمالی کی والدہ اپنی بیٹی کو اپنے خواب کی تعبیر پاتے نہیں دیکھ سکی، کیڈٹ کے لیے منتخب ہونے کے بعد پاکستان نیول اکیڈمی میں ان کی تربیت کو بیس روز ہی ہوئے تھے کہ ان کی والدہ چل بسیں۔ وہ بتاتی ہیں ” گاﺅں اور یہاں اکیڈمی میں ہر ایک کو یقین تھا کہ اب میں اپنی تربیت کو جاری نہیں رکھ سکوں گی، کیونکہ ان کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ مجھے شدید صدمے سے باہر نکلنے کے لیے کچھ وقت لگے، مگر میں اکیڈمی میں واپس آئی اور اپنی تربیت کو جاری رکھا۔ اس کے نتیجے میں اکیڈمی اور فورس میں اپنے سنیئرز کی نظروں میں بہت زیادہ احترام ملا “۔ لیفٹننٹ ذکیہ جمالی نے 2012 میں سب لیفٹننٹ کی حیثیت سے پاکستان نیوی کی تعلیمی برانچ میں کمیشن حاصل کیا اور اورماڑہ کے کیڈٹ کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ حال ہی میں انہیں لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی ” حتمی انٹرویو کے دوران بورڈ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا اورماڑہ میں کام کرنا میرے لیے اطمینان بخش ہے یا نہیں، میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک بلوچ ہوں اور بلوچستان میرا صوبہ ہے، میں یہاں کام کرکے بہت زیادہ خوش ہوں”۔ لیفٹننٹ ذکیہ جمالی نے ملک بھر میں پائے جانے والے اس تصور کو مسترد کردیا کہ بلوچ عوام لڑکیوں کی تعلیم کو اولین ترجیح نہیں دیتے اور کہا کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے” نصیر آباد، جھل مگسی اور دیگر اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح دیتی ہیں اور میری بہنیں اس کی مثال ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ معاشرہ خواتین کا احترام اور ان کے خیالات کو اہمیت دیتا ہے ” اگر ایک لڑکا کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے تو زیادہ امکان اس بات کے ہیں کہ اس کا خاندان اسے تسلیم نہیں کرے گا، مگر اگر وہ مطالبہ کسی لڑکی کی جانب سے ہو تو اس کا خاندان اسے پورا کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کرے گا، اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بلوچ اپنی خواتین کو کتنی اہمیت دیتے ہیں”۔ لیفٹننٹ ذکیہ جمالی کا کہنا تھا کہ بلوچ برادری میں خواتین کو اتنا احترام حاصل ہے کہ اگر ایک شخص نے کسی جرگے میں خاندانی تنازعے پر سوالات کیے جارہے ہوں تو اس کی بیٹیوں کی قسموں یا حلف پر اسے کسی قسم کی مہلت یا معاف تک کردیا جاتا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ عوام کو اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا صوبہ حالیہ برسوں میں کتنی اہمیت اختیار کرچکا ہے اور کس طرح وہ جغرافیائی و سیاسی اہمیت سے مستفید ہوسکتے ہیں ” بلوچ عوام کی جداگانہ شناخت ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے مگر پاکستان بلوچستان کے بغیر ادھورا ہے”۔ اور لیفٹننٹ ذکیہ جمالی ادب کے حوالے سے اب بھی وہی جوش رکھتی ہیں جو اس وقت ان کے اندر تھا جب انہوں نے اس میں ڈگری لینے کا فیصلہ کیا۔ غالب، اقبال اور جون ایلیا کی شاعری کی پرستار ذکیہ کہتی ہیں کہ انہیں “اپنے تخیل اور نئے خیالات کے اظہار کی اہلیت شاعری کے ذریعے حاصل ہوئی”۔ اردو ادب میں وہ قرة العین حیدر کے کام کو پسند کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچی ادب کا مطالعہ بھی کرتی ہیں اور عطاء شاد اور دانیال ترین کی تحریروں سے متاثر ہیں۔ وسیع المطالعہ، اپنے خیالات اور عزائم کا بلند آہنگ سے اظہار کرنے والی لیفٹننٹ ذکیہ جمالی کے سامنے واضح طور پر ایک اچھا کیرئیر موجود ہے۔ تو اب تک انہوں نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ اس کا حقیقت پسندانہ اظہار ذکیہ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے “اپنے خاندان اور آبائی قصبے کے لیے جو عزت میں نے حاصل کی ہے وہ میرے لیے ایک منفرد اعزاز ہے”۔