|

وقتِ اشاعت :   September 20 – 2024

 
 انعام الحق،ضیاء الرحمن ، جرنلسٹ ضیاء الرحمن، مظہر عباس ،معصومہ قربان،ظفر بلوچ ،خالد کاسی ،عبدالباسط کاشرکاء سے خطاب
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مہلک بیماریوں کی روک تھام کے لئے باقاعدہ طور پراہل دانش،حکومت سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے مختلف مراحل میںآگاہی پروگرامات ، ورکشاپس، مہمات چلائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ٹائیفائیڈ ، ملیریا،موسمیاتی بخارودیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ حتیٰ کہ نزلہ وزکام کو مضر بیماری سمجھ کر اس کے لئے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی ڈیمانڈ اورآگاہی کا زور ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ہر سال ہربڑی اور خطرک بیماری کا دن منایا جاتا ہے ، جن میںکینسر، ایڈز ،بلڈ پریشر ، دماغی امراض، نفسیات،ہیپاٹائٹس، شوگرودیگربیماریاں شامل ہیں، ان بیماریوںکے دنوں کے موقع پر دنیا بھر میں آگاہی پروگرام منعقد ہوتے ہیں،میڈیا میں خبریں، خصوصی اشاعت،تجزیات اورسول سوسائٹی کی جانب سے ریلیاں نکالی جاتی ہیںاور اس سے بچاؤاور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ماہرین اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ترقی یافتہ دنیامیں بیماری کی تشخیص کے بعد اس کے خاتمے اور اس کے بچاؤ پر ہنگامی طور پر کام کیا جاتا ہے، تاہم ترقی پذیر ممالک میں بغیر تحقیق کئے ہوئے معاشروں میں افوائیں پھیلائی جاتی ہیں کہ فلاں ویکسین نقصان دہ ہے ، فلاں دوائی حرام ہے ، پولیو کے قطرے بچوں کیلئے نقصان دہ ہیں ، فلاں دوائی کے سائیڈ افیکیٹ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بیماری کو بیماری سمجھ کر اس کے ساتھ لڑا جاتا ہے اور اس پر تحقیق کرکے اس کی بنیاد تک پہنچا جاتا ہے، انسان تو اپنی جگہ وہاں پر جانور کی تکلیف کو محسوس کرکے اس کی تکلیف دور کرنے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کئے جاتے ہیں کیونکہ اللہ کی تمام مخلوق کی خدمت کرنابڑی نیکی ہے اور اچھے معاشرے کی پہچان ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہم ان ترقی پذیر معاشروں میں شامل ہیںجہاں جانور تو اپنی جگہ انسانوں کی زندگی کی بھی قدر نہیں ، ہمارے معاشروں میں لوگ معذور اور مریض کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں اور ذہنی مریض یا پاگل شخص کا مذاق اڑاتے ہیں ۔معذور اور ذہنی بیماریوں کے شکار مریضوں کے ورثاء اپنے لیے شرمندگی اور بدنامی سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا جائزہ لیا جائے اگر کوئی شخص کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو ہمارا معاشرہ اس شخص کو پاگل قرار دے کر اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایسی ذہنی بیماریوں کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے عام طور پر دیکھا جاتا کہ اگر کسی کا بچہ کسی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو تو اس کے والدین اس کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی بجائے اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ معاشرے کی ستم ظریفی کو سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بات سب لوگوں کے سامنے آگئی تو ان کے بچے کو پاگل یا نفسیاتی مریض کہا جائے گا۔ ہمارے معاشرے کو سمجھنا ہو گا کہ جسمانی بیماریاں ہوں یا نفسیاتی ان کے پیچھے کیا عوامل شامل ہیںاور ان بیماریوں کا علاج بھی بہت اہم ہے کیونکہ بعض بیماریوں کی علامات پوشیدہ ہونے کی وجہ سے بر وقت علاج نہ ہونے سے مزید پیچیدہ بن جاتی ہیں۔ 
دیکھا جائے تو بیماریاں پیچیدہ تب بن جاتی ہیں جب ان کا علاج وقت پر نہ کیا جائے اور اس حوالے سے شعور وآگاہی رکھنا از حد ضروری ہے۔ہمارے معاشرے میں پسماندگی کی سینکڑوں وجوہات ہیں ، جن میں لاشعوری، لاعلمی، تعلیم سے دوری، مواقع حاصل نہ ہونا، کمیونیکیشن گیپ، صحت کی عدم سہولیات اور دیگر کئی وجوہات ہیں جن سے معاشرے میں دیگر خطرناک بیماریوں کے ساتھ ساتھ پولیو جیسی موذی بیماری جو کہ بچوں کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپاہج بنا دیتی ہے بھی پائی جاتی ہے۔دنیا میں پولیو کی بیماری سے لاکھوں بچے متاثر ہوئے، تاہم اس بیماری کی ویکسین کی ایجاد کے بعد ہنگامی طور پر پوری دنیا میں پولیو جیسی موذی بیماری کا خاتمہ کر دیا گیا،مگر بدقسمتی سے پولیو کے کیسز پاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں آج بھی موجود ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیو کے قطرے پلانے کی مہمات بھی جاری ہیں تو یہ کیسز کیوں ہو رہے ہیں ؟ مگر اس کے پس پردہ دیکھا جائے تو اس میں بہت ساری وجوہات شامل ہیں ،اکثر ورکشاپس میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کو چھپاتے ہیں ، ان کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے ، وہی بچے پولیو کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت غیر منطقی باتیں پولیو ویکسین کے بارے میں کی جاتی ہیں۔
تاہم یہ امر حقیقی ہے کہ دسمبر2019ء میں آنے والی کورونا بیماری کے حوالے سے بھی مختلف آراء دی گئیں،ہمارے معاشروں میں بھی ہزاروں لوگوں نے شروعات میں کورونا کی ویکسین نہ لی اور اس سے انکاری رہے۔چونکہ میرا موضوع پولیو ہے تو بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے اکثر والدین انکاری ہوتے ہیں ۔اسی طرح کوویڈ 19میں بھی بچوں کو کورونا ویکسین کے معاملے پراکثریتی والدین نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا تھا۔کورونا کے وقت میں پولیو کی طرح بار بار ایک ہفتہ پر مشتمل کورونا ویکسین مہم چلائی گئی تھی۔جس میں اکثریتی والدین نے اپنے بچوں کو رونا کی ویکسین لگوائی تھی۔تاہم ملک کے بعض علاقوں میں کورونا ویکسین لگانے سے والدین اپنے بچوں کو ویکسین لگانے سے انکاری رہے تھے ۔ انسدادِ کورونا کی خصوصی مہم میں پانچ سے گیارہ سال کے بچوں کوکورونا ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
ادھر کوئٹہ میں ملک بھر کے 18ویں پولیو کیس کی اطلاع آئی ہے،اس اطلاع نے ہمیشہ سے موجود خطرے کو اجاگر کیا ہے کہ ملک میں بچوں میں جنگلی پولیو وائرس ٹائپ ون (WPV1) کا پھیلاؤ بدستور لاحق ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں پولیو کے خاتمے کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے ضلع کوئٹہ کی یونین کونسل قادری آباد سے 2 سالہ بچے میں ڈبلیو پی وی 1 کی تصدیق کی ہے۔اگر دیکھا جائے تو رواں سال کوئٹہ سے پولیو کا یہ دوسرا کیس ہے،تاہم صوبہ بلوچستان سے 13واں کیس پورے ملک میں سب سے زیادہ کیسزمیں شامل ہے۔اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے66اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیووائرس موجود ہے۔حالانکہ دیکھا جائے تو گزشتہ دنوں انسداد پولیو مہم میں ملک بھر کے 115 اضلاع میں 3 کروڑ سے زیادہ بچوں کو حفاظتی ویکسین فراہم کی گئی، پولیو وائرس پر قابو پانے کے لئے انسداد پولیو مہمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جولائی اور اگست میں پولیو پروگرام کا از سر نو جائزہ لینے کے بعد مربوط حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مشاورت کے ساتھ پولیو کے خاتمے کا حتمی پلان تشکیل دیا ہے۔پلان کے مطابق ستمبر، اکتوبر اور دسمبر میں 3 مہمات کے ذریعے وائرس کے پھیلا ؤ کو روکنے کا منصوبہ تیارکیا گیاہے۔ ستمبر مہم کے اہداف کے مطابق2لاکھ85ہزار پولیوورکر گھر گھر پولیو مہم میں تمام بچوں کی کوریج کو یقینی بنایا گیا۔اس سلسلے میں تمام ڈپٹی کمشنرز، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز اور گورنمنٹ کے دیگر عہدیداران ورکرز کی معاونت کی گئی۔ تاہم آنے والے دنوں میں دو مزید مہمات اکتوبر اور دسمبر کے مہینوں میں کی جائیں گی۔ماہرین کی رائے ہے کہ سرد موسم میں سائنٹیفک حکمت عملی سے اس کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
اسی طرح پولیو آگاہی پروگرام کے سلسلے میں گزشتہ دنوں بلوچستان انسداد پولیو سیل اور یونیسیف کی جانب سے سندھ کے دارلحکومت کراچی میں’’عوامی تاثر کی تشکیل اور پولیو خاتمے کی کوشش میں میڈیا کا کردار‘‘کے عنوان سے بلوچستان کے سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے لئے دو روزہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا۔ مذکورہ ورکشاپس میں سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر مشتمل پروگرامات تشکیل دیئے گئے تھے۔پہلے روزسوشل میڈیا پر مشتمل صحافیوں کے لئے سیشنزکا اہتمام کیا گیا تھا ۔ تاہم دوسرے روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لئے سیشنز منعقد کئے گئے۔
دوسرے روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحافیوں کی ورکشاپ میں ایمر جنسی آپریشن سینٹر کوئٹہ کے صوبائی کوارڈینیٹر انعام الحق ، یونیسیف کی جانب سے اسلام آباد سے آئے ہوئے ضیاء الرحمن کمیونیکیشن اسپیشلسٹ ، سینئر صحافیوں میں مظہر عباس اورضیاء الرحمن نے اپنے پرمغز خیالات سے شرکاء کو بریفنگ دی۔تاہم معصومہ قربان،عبدالباسط ، ظفر بلوچ، خالد کاسی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا ۔ ورکشاپ میں پولیو کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئیں اور اس کی روک تھام کے لئے صحافیوں کو بریفنگ بھی دی گئی ، مقررین نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے اورڈیجیٹل سکرین کے ذریعے پولیو بارے معلوماتی ویڈیوز دکھائی گئیں۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ایمر جنسی آپریشن سینٹر کوئٹہ کے صوبائی کوارڈینیٹر انعام الحق نے کہا کہ میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں کہ آپ لوگ ا نسداد پولیو کے حوالے سے منعقدہ اس ورکشاپ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت بلوچستان، یونیسف، عالمی ادارہ صحت ، ضلعی انتظامیہ، سیکورٹی ادارے، علماء کرام، قبائلی عمائدین، اور دیگر پارٹنر اداروں کے بھرپور تعاون سے ہم بلوچستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے اپنی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ایک وقت تھا جب دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر بہت سارے کیسزرپورٹ ہوتے تھے،پولیو ویکسین کی ایجاد کے بعد دنیا بھر میں اب بچے اس خطرناک مرض سے بچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ،ہمارے ملک پاکستان اور افغانستان میں اب بھی پولیو مہمات جاری ہیںکیونکہ انہی دو ممالک میں پولیو وائرس باقی رہ گیا ہے۔انہو ں نے بتایا کہ پولیو کے قطرے پلا نا ہر بچے کی حفاظت اور پولیو سے پاک مستقبل کو یقینی بنانے کی کلید ہے۔
یونیسیف کی جانب سے اسلام آباد سے آئے ہوئے ضیاء الرحمن کمیونیکیشن اسپیشلسٹ نے اپنے پرمغز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معصوم جانوں کو پولیو سے بچانے کے لیے ہمارے بہادر فرنٹ لائن پولیو ورکرزجن میں خواتین بھی شامل ہیں ، سب کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں تاکہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلا ئی جاسکے۔ حقیقی معنوں میں ، میں نے پولیو فرنٹ لائن ورکرز کی نوکری کو بہت سخت پایاہے۔ تپتی دھوپ ہو یا شدید سردی، آندھی ہو یا تیز بارش ہمارے یہ فرنٹ لائن بہادرورکرز اپنا فرض ادا کرنے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں ،یہاں تک کے کرونا کے دور میں بھی ہمارے ایسے ورکرز ہیں جو کمیونٹی کو  ویکسینیشن پر آمادہ کرنے کے لیے پہلے اپنے بچوں کو انکاری والدین کے سامنے قطرے پلاتے اور پھر ان کے بچوں کو۔انہوںنے کہا کہ ہمارے ورکرزکو لوگوں کے تلخ رویوں اور نازیبا باتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بہت سے پولیوورکرز اس کارخیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ان ورکرز کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں پولیو پر قابو پانا اولین ترجیح ہے،تاہم بد قسمتی سے پولیو کیس پاکستان اور افغانستان میں ہیں ۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے نامسائد حالات کے باوجود پولیو ورکرز کی دلیرانہ خدمات باعث فخر ہیں،پولیو کے خلاف نبرد آزما ہونا ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے ،اس لئے پولیو حکومت کا ہی نہیں، پوری قوم کا معاملہ ہے،اس حوالے سے ہر فرد کو آگے بڑھ کر اس کار خیر میں ہاتھ بٹاناچاہیے۔تاہم اس حوالے سے ہم صحافیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، خبریں ، رپورٹس ، تجزیوں کے ذریعے پولیوآگاہی مہم بیان کرنی چاہیے ۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پولیو کے حوالے سے اس وقت بلوچستان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ پولیو ویکسین کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاںبہت ہیں ۔
سینئر جرنلسٹ ضیاء الرحمن نے ورکشاپ کے شرکاء کو بتایا کہ بلوچستان میں صحافت کرنا بہت مشکل کام ہے ، حالات حاظرہ کے مطابق دیکھا جائے تو صوبے میں صحافیوں کی زندگی  خطرے سے خالی نہیں۔تاہم پھر بھی بلوچستان کے صحافی ان مساعد حالات میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔انہوںنے شرکاء کو بتایا کہ ا پنے تجزیوں ،رپورٹس اور ڈیسک پر موجود صحافی حضرا ت اپنی خبروں میں وہ چیز اجاگر کریں جو کہ معاشرے کے لئیکارآمد ثابت ہوں۔ پولیو حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ معاشرے  میں پولیو ویکسین کے بارے میں عوام الناس میں پائی جانے والی غلط فہمیاں ملک کے اندر عدم تحفظ ، لاشعوری اورلاعلمی کے سبب پولیو کے خاتمے کی مہم اوربیماری کے خاتمے میں ناکامی کی وجوہات ہیں ۔انہوںنے کہا کہ صحافیوں سمیت معاشرے کے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں جن میںمذہبی رہنما، سیاسی وسماجی تنظیموں کے نمائندے پولیو کے حوالے سے مل کر اپنے تعاون کو یقینی بنائیں۔
معصومہ قربان اور ظفر بلوچ نے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ آپ صحافی حضرات اس ورکشاپ سے مثبت اور اچھی یادیں لے کر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے پولیو کے حوالے سے تجزیات، رپورٹس اور خبروں کو بیان کریں گے اور خاص کر بلوچستان میں پولیو آگاہی مہم بارے پولیو انتظامیہ ، پولیو ورکرز کے ساتھ تعاون کو یقینی بناتے ہوتے ہوئے بھرپور تعاون کریں گے۔ ایسے اقدامات سے آپ کے توسط سے پولیو کے حوالے سے معاشرے میں ایک مثبت پہلو اجاگر ہو گا ۔
عبدالباسط اور خالد کاسی نے شرکاء کو پولیو کے حوالے سے دلچسپ معلومات فراہم کیں، انہوں نے ویڈیو ، ڈیجیٹل اسکرین پر معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ایک انتہائی متعدی اور وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے جو عام طور پر پانچ سال تک کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔پولیو وائرس آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ پولیو کی ابتدائی طور پر ظاہر ہونے والی علامات میں بخار، شدید تھکاوٹ، سر درد، متلی یا قے، گردن کا اکڑ جانا اور اعصابی درد شامل ہیں۔ پولیو کا کوئی علاج نہیں۔ اس سے بچاؤ کا واحد راستہ پولیو ویکسین یعنی پولیو سے بچاؤ کے قطروں کا استعمال ہے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ پولیو جہاں بچوں کو جسمانی معذور کرتا ہے، وہیں پولیو میں بچوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں پولیو کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان میں تاحال پولیووائرس موجود ہے۔اگر ہم اپنے معاشرے سے معذور بچوں کا خاتمہ اوراپنے معاشرے کو ایک صحت مند معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کرپولیو کے حوالے سے اپنے اپنے تئیں اس پر کام کرنا ہو گا۔دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ ہم اہم کام یہ کرسکتے کہ ہم اپنے معاشرے میں پولیو کے نقصانات اور اس کے متعلق تعلیم اور آگاہی فراہم کرسکتے ہیں ،بد قسمتی سے جو بچے پولیو جیسی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں ،ان کے ارد گرد کے لوگ ان کا خیال رکھیں اوراپنے معاشرے میں ان کی مثال دیتے ہوئے پولیو کے نقصانات بتائیں ۔ہم سب مل کرپولیو کے حوالے سے شعور وآگاہی پھیلا کر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔