|

وقتِ اشاعت :   September 20 – 2024

قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو گئی، نئی پارٹی پوزیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے 80 اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کی گئی نئی پارٹی پوزیشن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سے واپس لی جانے والی نشستوں کا پارٹی پوزیشن میں ذکر کیا گیا ہے، نئی پارٹی پوزیشن 18 ستمبر کو جاری کی گئی ہے۔

اعلامیے کے مطابق حکومتی بینچز پر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی 110 اور پیپلز پارٹی کی 69 نشستیں ہیں جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے 22، ق لیگ کے 5، آئی پی پی کے 4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہیں۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق حکومتی بینچز پر20 مخصوص نشستوں کے علاوہ 213 اراکین ہیں جبکہ اپوزیشن بینچز پر سنی اتحادکونسل کے 80، جے یو آئی کے 8، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد اراکین، پی کے میپ، بی این پی مینگل اور ایم ڈبلیو ایم کا ایک ایک ممبر ہے۔

اپوزیشن بینچز پر موجود ایک آزاد رکن نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ سیکرٹریٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کو 15، پیپلز پارٹی پارٹی کو 5 اور جے یو آئی کو 3 مخصوص نشستیں دی گئیں تھیں تاہم مخصوص نشستیں گنتی میں شامل نہیں ہیں، قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 23 مخصوص نشستوں کے بغیر313 ہے، خالی اور متنازع 23 نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے بعد تعداد 336 ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، جس رکن پارلیمنٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوگا، وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بہرحال سپریم کورٹ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ دے چکی ہے اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے درمیان نہیں بلکہ پارلیمان خاص کر موجودہ اتحادی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان ہے۔ یقینا سپریم کورٹ کی جانب سے بھی ردعمل آئے گا جبکہ پی ٹی آئی کو سڑک گرم کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آئے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے کس طرح کا ردعمل ہوگا اور حکومت اسے کس طرح سے ڈیل کرے گی مگر ایک بات واضح ہے کہ اس وقت پارلیمان اور سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان ایک کشیدہ ماحول چل رہا ہے پیشگی نتائج کا کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور آئینی جنگ کی شدت میں اضافہ ضرور ہوگا۔