|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2024

کئی برسوں سے ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے قرض کے بغیر معاشی نظام نہیں چل سکتا اس لئے ہر نئی حکومت آتی ہے تو وہ مالیاتی اداروں سمیت دوست ممالک سے قرض کیلئے رجوع کرتی ہے تاکہ معاشی نظام کو چلایا جاسکے حالانکہ پاکستان وسائل سے مالا مال خطہ ہے ،زرعی ملک ہے مگر اس کے باوجود معیشت کے میدان میں بہت پیچھے ہے جس کی بڑی وجہ معاشی نظام میں بہترین اصلاحات کانہ ہونا، مستقل معاشی پالیسی کا فقدان جبکہ ساتھ ہی سیاسی عدم استحکام ہے ۔
اگر حکومتیں معاشی اصلاحات اور پلان کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر آگے بڑھتیں تو شاید ملک معاشی تنزلی کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی قرض پر ملک کو چلانے کی ضرورت پڑتی۔ جب بھی مالیاتی ادارے قرض دیتے ہیں تو حکومتیں بہت زیادہ خوش ہوجاتی ہیں کہ ہمیں رقم مل رہی ہے اب معیشت کو بہتر کرنے کیلئے اصلاحات لائینگے معاشی پلان کے ذریعے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے معاشی بحران اور قرض سے نجات حاصل کرینگے مگر قرض لیکر ملک بہت زیادہ مقروض بن چکا ہے ،ملکی معیشت کا بیشترحصہ سود کی مد میں چلا جاتا ہے، عالمی مالیاتی ادارے کیلئے پاکستان آمدن کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے جس کی بڑی وجہ مالی بحران کی وجہ سے قرض لینا ہے۔
بہرحال وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ دوست ملکوں کی یقین دہانیوں کے بعد آئی ایم ایف مطمئن ہوگیا ہے، اجلاس بلالیا ہے ہمیں قسطوں میں رقم فراہم کرے گا جس کے لیے شرطیں پوری کرنا ہوں گی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بتایا کہ دوست ممالک نے آئی ایم ایف کوپاکستان کا قرض رول اوور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، یقین دہانیوں کے بعد آئی ایم ایف نے اجلاس بلایا ہے،آئی ایم ایف قرض کی ساری رقم یک مشت نہیں دے گا بلکہ اقساط میں رقم فراہم کرے گا جس کے لیے شرائط کوپورا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل پاور سیکٹر اصلاحات ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا پروگرام ہے اور پاکستان کی مجموعی ضروریات 12 ارب ڈالر کی ہیں، آئی ایم ایف قرض کے علاوہ 5 ارب ڈالر اضافی فنانسنگ کی ضرورت ہوگی، آئی ایم ایف 5 ارب ڈالر دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے حصول میں مدد دے گا۔
اجلاس میں وزیر مملکت علی پرویز ملک نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کریں گے تو قسط جاری ہوگی ، آئندہ چار سال میں 100 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے۔
بہرحال آئی ایم ایف قسطوں میں رقم دیتا رہے گا جبکہ ساتھ ہی اپنے معاشی پلان پر عملدرآمد کیلئے دباؤ بھی برقرار رکھے گا، 100 ارب ڈالر کی ادائیگی یقینا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے مگر یہ مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گی۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا آخری معاہدہ ہوگا ،خدا کرے کہ ایسا ہی ہو مگر جس طرح کی معاشی پالیسیاں اور سیاسی ماحول نظر آرہا ہے نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا ملے گا۔
بہرحال سب کی خواہش ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل جائے ،ملک ترقی کرے۔
عوام ،تاجر مسائل سے نکل آئیں ،صنعتیں ترقی کریں ،روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں، عوام خوشحال زندگی کا خواب اپنے ہی ملک میں پورا کرسکیں۔