سینیٹر خالدہ اطیب نے کہا ہے کہ صوبوں کے نچلی سطح پر فنڈز تقسیم نہ کرنے سے نظام مفلوج ہو گیا ہے، بلوچستان کے عوام کی محرومی کی وجہ وسائل کی منتقلی نہ ہونا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک کے زیرِ صدارت اجلاس ہوا۔
اجلاس میں ایم کیو ایم پاکستان کی سینیٹر خالدہ اطیب نے بلدیاتی انتخابات کا آرٹیکل 140 اے میں ترمیم کا بِل زیرِ بحث لاتے ہوئےکہا کہ صوبوں کو اپنے اختیارات نچلی سطح تک تقسیم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ عام آدمی مستفید نہیں ہو سکتا، کئی صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں گئے، مالیاتی کمیشن کا فنڈ بھی بلدیات تک تقسیم کیا جائے، ایم کیو ایم کے پاس صوبائی حکومت ہے نا بلدیاتی، مگر اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم چاہتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 170 میں درج ہے کہ وفاق سے صوبوں کو ملنے والے فنڈز نے آگے تقسیم ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک یو سی چیئرمین کے پاس اختیار نہیں کہ گٹر کا ڈھکن لگا سکے کیونکہ اس کے پاس فنڈز نہیں، تمام اختیارات صوبائی وزیرِ بلدیات کو دینے کے سے عام آدمی تک سہولتوں کی رسائی رکی ہوئی ہے۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات کی تفویض بہت ضروری ہے مگر آئین کے مطابق چلنا ہے، آرٹیکل 140 اے کی روح سے چلنا ہو گا کیونکہ ہم آئین کے تابع ہیں، لوکل گورنمنٹ کا معاملہ کسی ایک جماعت کا نہیں، پاکستان کے عوام کا ہے۔
سینیٹر حامد خان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب سے پارلیمنٹیرینز کو براہِ راست فنڈز دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تنازع ابھرا، پارلیمنٹیرینز کو براہِ راست ترقیاتی فنڈز دینے سے کرپشن بڑھی، ایک قانون ساز کا کام قانون بنانا ہے نا کہ فنڈز لینا۔
دوسری جانب سینیٹر ضمیر حسین نے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہےاور اس پر فیصلہ کرنا یا لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے، ماضی میں جب آمر نے لوکل گورنمنٹ کو صوبوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کا نقصان ہوا، قانون سازوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کی ممانعت آئین میں نہیں، لوکل گورنمنٹ سے متعلق یہ بل مسترد کیا جائے۔
اس پر سینیٹر شہادت اعوان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک صوبے کے کہنے پر تمام صوبوں کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ صوبائی معاملہ ہےاور صوبےخود اپنی قانون سازی کےمجاز ہیں، جو صوبہ جس لوکل گورنمنٹ کو جتنی زیادہ استعداد دینا چاہتا ہے دیدے۔
وفاقی وزیر برائے قانون نے کہا کہ وفاقی حکومت ثالث کا کردار تو ادا کر سکتی ہے مگر فیصلہ صوبوں نے کرنا ہے، آئینی الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے، مسئلہ رویوں میں ہے اور وہ آئین میں تبدیلی سے درست نہیں ہوں گے، صوبے آپس میں مل بیٹھ کر ایک لوکل گورنمنٹ فریم ورک تشکیل دے سکتے ہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم تو محرومی کی وجہ سے محروم ہونے والے ہیں۔
بعد ازاں کمیٹی نے وزارت قانون کو آئندہ اجلاس تک صوبوں سے مشاورت کر کے جواب دینے کا وقت دیتے ہوئے بل مؤخر کر دیا۔