2024 ء کے الیکشن پر تقریبا ًتمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے گئے کیونکہ جن جماعتوں نے ماضی میں جن حلقوں سے کبھی ایک نشست نہیں جیتی ان کے امیدوار ان حلقوں سے بھی کامیاب ہوگئے مگر اس کے باوجودانہی سیاسی جماعتوں کا الیکشن نتائج پر اعتراضات موجود ہیں۔
بہرحال یہاں بنیادی مسئلہ نتائج کا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں نے ہر الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں مگر اس میں کسی حد تک نقص موجود ہے جس کی شفافیت کو یقینی بنانا متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے۔
اگر جمہوری عمل میں بدنیتی اور نقص پیدا کرنے کی مبینہ کوشش کی جاتی ہے تو اس کا نقصان جمہوری عمل کو ہوتا ہے اور جمہور جو اس عمل میں جوش و جذبے کے ساتھ جڑتے ہوئے ملک میں مثبت تبدیلی، ترقی خوشحالی اور اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں بدنیتی کے عنصر کی وجہ سے ان میںمایوسی پھیلتی ہے اور عوام کا اعتماد ووٹ پرسے اٹھ جاتا ہے۔ اسے بہتر کرنا اداروں اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
آج ملک میں آئینی ترامیم، پریکٹس پروسیجر ترمیمی آرڈنینس سمیت دیگر قانونی و آئینی معاملات نے سیاسی مسائل پیدا کردیے ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں پر اعتراض ہے جبکہ ترامیم پر بھی چند ججز اور حکومت کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ اعتراضات سامنے آتے ہیں کہ چند ججز میرٹ پر نہیں بلکہ اپنی خواہشات کے مطابق آئین کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ دے رہے ہیں جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آرہا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے ساتھ ہی آئینی ترامیم بل، پریکٹس پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سمیت دیگر آئینی معاملات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایک اوراہم مسئلہ مخصوص نشستوں کا بھی ہے جس میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان آئینی جنگ چل رہی ہے۔
مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں نے احکامات جاری کیے ہیں کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو نوٹی فائی کرے۔پیر کو جاری ہونے والا تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریرکیا ہے۔
اب الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرتے ہوئے فیصلے سے متعلق رہنمائی مانگی ہے۔
الیکشن کمیشن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے خط لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوئی۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں پوچھا ہے کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کو فوقیت دی جائے یا عدالتی فیصلے کو؟ رہنمائی کی جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے ڈی نوٹیفائی ہونے والے ارکان نے بھی ترمیمی قانون پر عملدرآمد کیلئے رجوع کیا، عدالتی فیصلے پر 39ارکان کی حد تک الیکشن کمیشن عملدرآمد کرچکا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں کہا کہ ترمیمی ایکٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق ترمیم کرکے ماضی سے اطلاق کیا گیا ہے، عدالتی فیصلے واضح ہیں کہ پارلیمنٹ کی دانش کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد نہ کرنا بھی سوالیہ نشان ہوگا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔
اپنے خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ جس رکن پارلیمنٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوگا اور وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے، انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بعد ازاں اسپیکر کے خط کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تبدیل کردی گئی تھی اور نئی پارٹی پوزیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے 80 اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کیا گیا تھا۔
بہرحال ملک میں اس وقت آئینی اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کا سماں ہے اور جو ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ آگے چل کر اس میں مزید شدت آسکتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے اندر بھی ججز کے درمیان اختلافات موجود ہیں جو کہ انہی فیصلوں اور ترامیم کے گرد گھومتی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اب الیکشن کمیشن کی مخصوص نشستوں پر نئی درخواست کا ردعمل کیا آئے گا، ملک میں اس وقت اگر بڑا معاملہ کوئی ہے تو وہ آئینی جنگ ہے جس کے انجام کے متعلق فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔