|

وقتِ اشاعت :   7 hours پہلے

پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپورنے کہا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے ، ہمارے ساتھ ظلم ہوا، ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا لیکن ہم نے صوبے میں کسی سرکاری اہلکارکو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ ہم ملک و قوم کی خاطر سب کچھ بھول کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود ہمیں ریلیف نہیں دیا جارہا ، یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ہم بین الاقوامی سطح پر تماشابنے ہوئے ہیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ جن لوگوں نے توشہ خانہ سے غیر قانونی طور پر چیزیں لی ہیں وہ آج قتدار میں بیٹھے ہیں لیکن جس نے توشہ خانہ سے قانونی طور پر ایک گھڑی لی ہے اسے جیل میں ڈالا گیا ہے۔ جب ہم اس طرح کے معاملات پر بات کرتے ہیں یا سوال اٹھاتے ہیں تو ہمیں غیر ذمہ دار کہا جاتا ہے۔ ہم اپنی ذات یا کرسی کیلئے بات نہیں کرتے بلکہ ملک و قوم کی خاطر بات کرتے ہیں۔ ایسے معاملات پر سمجھوتہ کرکے چپ نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم آزاد ہیں اور ہمیں حقیقی آزادی اور حقیقی جمہوریت چاہئیے۔ آج یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے

کہ قوم کو غلام بنانا ہے یا وہ آزادی لینی ہے جس کیلئے ہمارے آباء￿ واجداد نے قربانیاں دی ہیں۔ ان معاملات پر سمجھوتہ کرنا قوم اور آئندہ نسل کے ساتھ غداری ہے۔ آزاد پختونستان کے حق میں نہیں ہوں ، پاکستان ہمارا سب کچھ ہے ، ہم نے اسی ملک کو ٹھیک کرنا ہے ، ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی ایسے بیانیہ کی حمایت نہیں کروں گا۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ نے جمعہ کے روز کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف، سیکرٹری اطلاعات ارشد خان، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات و تعلقات عامہ محمد عمران بھی موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے میڈیا اور صحافیوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ہر انسان اور ہر شعبے میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے، امید ہے ہمارا میڈیا اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں پوری کرے گا۔ ہم میڈیا کی تنقید کو ہمیشہ مثبت انداز میں لیں گے اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح بھی کریں گے۔میڈیا کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے، محکمہ اطلاعات میڈیا کے بقایا جات کی ادائیگیوں کے لئے طریقہ کار وضع کرے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحافیوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں

اور ملک و قوم کی خاطر قربانیاں دی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں میڈیا کی ترجیحات میں عوامی مسائل اور ان کا حل سرفہرست ہونا چاہئیے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں چند مخصوص صحافیوں کا ذکر کیا تھا کمیونٹی کے بارے میں بات نہیں کی تھی،اگر ہم غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تو اصلاح کیسے ہوگی، میرا مقصد صحافی برادری کی دل شکنی نہیں تھا، میں پہلے بھی اس کی وضاحت کرچکا ہوں۔علی امین گنڈ ا پور کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے منافع بخش قومی ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں،ملک پر 56000 ارب روپے بیرونی قرضہ چڑچکا ہے لیکن یہ پیسہ عوام پر نہیں لگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت فارم 47 کی حکومت ہے جس میں شامل لوگوں کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ ان کے پاس اختیار ہے، مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست جیتی ہے،

یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے اقتدار پر قابض ہیں اور ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فارم 45 سامنے لائے جائیں یا دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔اس وقت ملک کو امن و امان کے سنگین مسائل درپیش ہیں ،افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات کی وجہ سے خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے فوجی، پولیس اور عام لوگ شہید ہو رہے ہیں، ملک کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والوں اور ان کے اہل خانہ کو سلام پیش کرتے ہیں، فوج ہماری ہے اور ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، کسی فرد کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے، کسی پالیسی پر اعتراض ہوسکتا ہے

لیکن اس کا مقصد اداروں کو کمزور کرنا نہیں،عمران خان نے ہمیں سکھایا ہے کہ ادارے مضبوط ہونگے تو ملک مضبوط ہوگا۔علی امین گنڈا پور نے صوبے کے مسائل سے متعلق کہا کہ وفاقی حکومت کے ذمے پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبے کے 1610 ارب روپے کے بقایا جات ہیں،وار آن ٹیرر کی مد میں صوبے کو ایک روپیہ بھی نہیں ملا،ضم اضلاع کا این ایف سی کا شئیر بھی پورا نہیں مل رہا، فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل خیبر پختونخوا کے انتہائی اہم منصوبوں کے لئے فنڈز مختص نہیں کئے جا رہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بارات اور ڈھول لے کر لاہور جانے کی بات محاورے کے طور پر کی تھی اس کا غلط مطلب نکالا گیا، سوشل میڈیا پر اس کو جو رنگ دیا جا رہا ہے

وہ اسلام اور شریعت میں درست نہیں، سوشل میڈیا صارفین سے کہوں گا کہ اس طرح کی غیر اخلاقی پوسٹوں سے اجتناب کریں۔ ایک اور جواب میں انہوں نے کہا کہ خواتین کی تعلیم صوبائی حکومت کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، تباہ شدہ اسکولوں کی دوبارہ تعمیر پر کام جاری ہے، کرائے کی عمارتوں میں سکول کھولنے کی پالیسی بنائی ہے ہمارا مقصد تعلیم ہے عمارت کی تعمیر نہیں ، صوبے میں تعلیم کارڈ کا اجراء￿ کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے بچے سرکاری اخراجات پر پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ لے سکیں گے، ہیلتھ کارڈ میں لائف انشورنس کو بھی شامل کیا جارہا ہے، صوبے میں کم آمدن والے گھرانوں کو سولر فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *