کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ رکن بلوچستان اسمبلی راجی راہشون میر اسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے مقتدر قوتوں کے کہنے پر میرے علاقے کے 2 لاکھ 75 ہزار لوگوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لئے مختص کئے گئے
7 ارب روپے کے فنڈز روک کر میرے علاقے کے 140 کلو میٹر طویل اور 60 کلو میٹر چوڑائی پر محیط آبادی کو محروم رکھنے کی مذمت کرتا ہوں اور پارلیمنٹ کو قانون ساز ادارہ ہی رہنے دیں اسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنایا جائے میں اپنے عوام کے ساتھ ملکر ان کی مشاورت سے ان عمل کے خلاف پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر آواز اٹھائوں گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو اپنی رہائشگاہ پر مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر ناشناس لہڑی اور دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔ میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ مجھے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 29 پنجگور ون کے لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے منتخب کرکے ایوان میں بھیجا ہے جس کا مقصد اپنے لوگوں کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنانا ہے میرا حلقہ 140 کلو طویل اور 55 سے 60 کلو میٹر پر محیط ہے یہاں پر 2 لاکھ 75 ہزار نفوس آباد ہیں اور مذکورہ حلقے میں 2 میونسپل کمیٹی 8 یونین کونسل اور میونسپل کارپوریشن کا ایک حصہ بھی اس حلقے پر محیط ہے میرے حلقے میں واقعہ چیدگی بارڈر سے سالانہ وفاقی حکومت کو تقریباً 10 ارب روپے ریونیو حاصل ہوتا ہے
اور میں نے اپنے 40 سالہ سیاسی دور میں علاقے میں لوگوں کی فلاح و بہبود تعمیر و ترقی کے لئے جتنے کام کروائے ہیں اس کی پاکستان کے 840 اراکین اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کی مثال نہیں مل سکتی کیونکہ میں نے تمام فنڈز بغیر کسی کو حصہ دیئے علاقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے ہیں اور ان فنڈز سے بارڈر سے لیکر شہر تک 50 میٹر سے طویل دو رویہ سڑک علاقے میں جدید تعلیم کے لئے یونیورسٹی ، لاء اور زرعی کالجز ، ڈیجیٹل لائبریری کے علاوہ تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی ، انتظامی دفاتر کی تعمیر ممکن بنائی ہے اور میرے سیاسی مخالفین نے کبھی بھی علاقے کی تعمیر و ترقی پر توجہ نہیں دی
اس کے باوجود پی بی 30 پنجگور ٹو کے نمائندے کو ڈیڑھ ارب روپے دیئے گئے ہیں میں نے اپنے گزشتہ ادوار میں 22 ارب روپے کی لاگت سے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ہے انہوں نے کہا کہ بیروزگاری اور بد امنی، انار کی کو ختم کرکے علاقے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے 64 عوامی نمائندوں کو فنڈز مہیا کئے گئے واحد رکن اسمبلی اور عوام کے منتخب نمائندے کو فنڈز سے محروم رکھنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی اور علاقے کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 75 سال سے اس طرح کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان پسماندگی کی تصویر پیش کررہا ہے اور حقیقی نمائندوں کا راستہ روک کر منظور نظر لوگوں کو قانون ساز ادارے میں بٹھا کر صوبے اور عوام کے مخالف قانون سازی کرکے ان کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں
جس کی ہم اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ ہر 5 سال بعد انتخابات میں لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے نمائندوں کا چنائو کریں اور وہ ان کے مسائل حل کریں ہمیں اس سر زمین سے محبت ہے اور ہمارا جینا مرنا اسی دھرتی اور سرزمین سے وابستہ ہے انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں 7ارب روپے پنجگور کے فنڈز نکال دیئے گئے یہ فنڈز عوامی نوعیت کے کاموں پر خرچ ہونے تھے جس کی وجہ سے میرے حلقے کو صوبے اور پاکستان کے نقشے سے نکال دیا گیا ہے صوبے کے نقشے سے نکالنے مقصد ملک کے نقشے سے نکال دینا ہے آئین میں لوگوں کو روز گار تعلیم ، صحت سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی جارہی انہوں نے کہا کہ اگر اس عمل کے بعد پی بی 29پنجگور ون کے لوگوں کو بیماری پینے کے پانی ، تعلیم سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا
اس اس پی اینڈ ڈی کی بجائے وزیراعلی ہائوس میں بجٹ بنایا گیا اس ملک میں سیاسی کشمکش ہے ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے اور آئی ایم ایف لئے جانے والے قرضوں کو ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنے کیلئے اپنے آمدن کے ذرائع بڑھانے کے لئے نہ کوئی پالیسی بنائی گئی اور نہ ہی توجہ دی گئی کیونکہ زور آور طاقت کے استعمال سے ہی تمام معاملات کوحل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس اقدام سے ملک کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا ملک کو مضبوط کرنے کے لیے انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہیے اس کے باوجود بھی میرے حلقے کے فنڈز کی کٹوتی کی گئی ہے ناانصافیوں سے بدامنی آئے گی اپوزیشن کے ساتھ رہوں گا وہ میرا ساتھ دیں یا نہ دیں۔
انہوں نے بی این پی کے رہنما کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں کسی بھی قومیت یا طبقے کے شخص کو ظلم و جبر کے ذریعے قتل کرنے کی مذمت کرتا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیرا علیٰ سرفراز بگٹی پی ایس ڈی پی میں اپنے حلقے کے لئے 22 ارب ، ظہور احمد بلیدی 20 ارب روپے اور میر شعیب نوشیروانی 18 ارب روپے اپنے حلقوں کے لئے لے گئے ہیں تو باقی صوبے کے منتخب نمائندے کیا کریں گے ہمیں اس طرح کی ذاتی مفادات کی پالیسوں سے گریز کرتے ہوئے اجتماعی پالیسیوں پر توجہ دینا ہوگی
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کے خلاف اپنے حلقے کے لوگوں اور اس کے بعد پارٹی کے ساتھ ساتھیوں اور صوبے کے عوام کے سامنے تمام حقائق رکھوں گا جو بھی وہ فیصلہ کریں گے اس پر عمل پیراہوکر ان کے خلاف احتجاج کروں گا اس کے لئے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر اٹھائوں گا میں نے پہلے بھی ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری اور پی اینڈ ڈی حکام کو لیگل نوٹس بجھوائے ہیں تاکہ انصاف حاصل کرسکوں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے اسے کاروبار کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور مقتدر قوتوں کی ایماء پرمیرے فنڈز روکنا حلقے کے عوام کے ساتھ قانون کی خلاف ورزی ہے اس لئے وزیر اعلیٰ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے۔