|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2024

کوئٹہ: گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے گورنر ہائوس کوئٹہ میں آکسفورڈ الوینائی کی جانب سے منعقدہ نیشنل ڈائیلاگ میں ” پاکستان کی قدرتی وسائل اور مستقبل کی انڈسٹریز” کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان، خاص طور پر بلوچستان کے وسیع وسائل، قیمتی معدنیات سے لیکر مضبوط بلو اکانومی تک،

بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے لیکن ان کی صلاحیتوں کو غیرمقفل کرنے کیلیے، ہمیں اپنے انسانی وسائل کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لوگ ہی ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے کہا سائنٹفک سوچ و اپروچ اور جدید مہارتوں کے بغیر ہماری قدرتی وسائل بیکار رہیگی، جیسے ایک اسمارٹ فون جس کی بیٹری ناکارہ ہو۔

ہمارے پاس زرخیز زمینیں ہیں لیکن ہمارے غیر مہارت یافتہ روایتی کسان ان کی پیداوار میں رکاوٹ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہائوس کوئٹہ میں نیشنل ڈائیلاگ کی مناسب سے منعقدہ پروگرام کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی، پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے وائس چانسلر صاحبان، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے الومنائی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے مرد و خواتین کی بڑی نے شرکت کی.

اس موقع پر گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ جیسا کہ ہم معنی خیز ترقی کیلیے کوشش کرتے ہیں،

ہمیں اپنے ملک اور صوبے کے منفرد کونٹیکسٹ میں قابل حصول مقاصد کو ترجیح دینی چاہیے۔ آپ کی قابل احترام ڈگریاں اور جدید علم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر ہم اپنے زمینی حالات و حقائق سے ناواقف ہیں۔ کوئی بھی نامور سائنس دان یا سیاست دان علم کے تخلیقی اطلاق کو گہرائی سے سمجھے بغیر یہاں ایک بڑی تبدیلی کو جنم نہیں دے سکتا۔

اسلئے ہمیں اپنی تھیوریٹکل مہارت کو تخلیقی اطلاق کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے کیونکہ صرف کونٹیکسٹ ہی ٹیکسٹ کو واضح کر سکتا ہے۔انہوں نے واضح کر دیا کہ ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کی حیثیت سے ہمیں اپنی حقیقتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہاں، ہم روزمرہ زندگی کی بہت ہی عام چیزوں کیلئے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف پیپرلیس اور ڈرائیور لیس کے مستقبل پہلے ہی ہمارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔

مسلسل بڑھتی ہوئی عالمی مسابقت سکڑتی ہوئی دنیا میں جدید تقاضوں کو پورا نہ اترنے والے اقوام کی عملداری کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

ہماری اپنی کمزوریاں ہی استحصال کو دعوت دیتی ہیں۔ گورنر مندوخیل نے کہا کہ ایلون ٹوفلر اور نوح ہراری جیسے بصیرت والے مفکرین کی کمی کے باعث ہمیں اپنے مستقبل کی خود پیش گوئی کرنی چاہیے۔ مارکیٹ پر مبنی ہنرمند افرادی قوت کے ساتھ سائنٹفک اپروچ ہمیں سولر توانائی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی جیسی مستقبل کی صنعتوں کو استعمال کرنے کے قابل بنائیگا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ ستم ظریفی ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی سکالرز، ریسرچرز اور سائنٹسٹ آج بھی منافع بخش سرکاری ملازمتوں، تنخواہوں اور مراعات کیلئے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے پروفیشنل انجینئرز اور ڈاکٹرز وغیرہ دوسروں کو ملازمت فراہم کی بجائے سرکاری ملازمت کے متلاشی ہیں۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ محض کنزیومر بنے کی بجائے پروڈیوسر بنیں۔

گورنر بلوچستان نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے الومنائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے روشنفکر حضرات ہیں پاکستان کی قدرتی وسائل اور افرادی قوت کا از سر نو جائزہ لینے کیلئے سپرد کرتا ہوں۔ ہمارے معاشرے کے صاحب رائے اور صاحب فکر ہونے کے ناطے، آپ کو موجودہ چیلنجز کی دوبارہ ڈیفائن کرنے اور تخلیقی حل ڈھونڈنے کی طاقت حاصل ہے۔

اب وقت آپہنچا ہے کہ پرانے علم کو نئی تحقیق پر مبنی نقطہ نظر سے دیکھیں۔ ہمیں آپ کی شاندار تجاویز اور سفارشات کا بیصبری سے انتظار ہے۔ اپنے تمام وسائل کو باہمی تعاون اور بہتر بنا کر، ہم متحرک لیگسی اور پائیدار ترقی کو یقینی بناسکتے ہیں۔