|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

پاکستان کوعالمی مالیاتی ادارے سے قرض پروگرام کی پہلی قسط موصول ہوگئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے7 ارب ڈالر پر مشتمل 37 ماہ کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف سے 1 ارب 2 کروڑ 69 لاکھ ڈالرکی پہلی قسط موصول ہوگئی ہے۔
یہ رقم اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں جمع کی جائے گی جو جمعرات 03 اکتوبر 2024 کو جاری کی جائیں گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی تھی جبکہ قرض پروگرام کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل درآمد کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان این ایف سی ایوارڈ فارمولے پر نظرثانی کرے گا اور آئی ایم ایف صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی مانیٹر کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف قرض پروگرام کی کڑی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ مستقبل میں پنجاب حکومت کی طرز پر بجلی قیمتوں پر ریلیف نہیں دیا جائے گا اور پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ضمنی گرانٹس جاری نہیں کرے گا۔
پاکستان زرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان نیا نیشنل فنانس معاہدہ کیا جائے گا جس پر بات چیت جاری ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان شعبہ توانائی کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد سبسڈی نہیں دے گا، بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اصلاحات کی جائیں گی، حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے جامع پیکج لائے گی اور غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی فاقی حکومت کے ڈھانچے کو کم کیا جائے گا۔
بہرحال قرض ملنے کے بعد آئی ایم ایف کی تمام شرائط پورے کئے جائینگے۔
ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہے بہ امر مجبوری آئی ایم ایف کے شرائط کو ماننا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ،اگر آئی ایم ایف شرائط پر عمل میں کسی جگہ مسائل پیدا ہونے لگیں تو دیگر اقساط کو روک دیا جائے گا جس سے معاشی بحران سنگین ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔
بہرحال شرائط پہلے بھی پورے کئے گئے تھے اور اب بھی آئی ایم ایف کی مرضی و منشاء کے خلاف کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس سے معاشی صورتحال کے حوالے سے مسائل پیدا ہوں جیسا کہ پی ٹی آئی دور میں معاہدے کے برعکس اقدامات سے آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کیلئے حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اٹھائے جائیںکہ ملکی معیشت قرض کی محتاج نہ رہے جس کیلئے سب سے پہلے حکمرانوں کو اپنے اخراجات، حکومتی اخراجات، پروٹوکول سمیت دیگر غیر ضروری مراعات ختم کرنے ہونگے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہو جائے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ معیشت کی بہتری پر لگ جائے تاکہ معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکیں ۔
یہ کہنا فی الحال مشکل ہے کہ آئی ایم ایف سے یہ آخری قرض پروگرام ہے چونکہ سود کی شرح اربوں ڈالر میںہے اس کی ادائیگی کیلئے چار سال کی مدت کم ہے۔
جب تک معاشی اصلاحات، وسائل، پیدواری صلاحیت میں اضافہ اور سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیا جائے گا معاشی مسائل موجود رہینگے اور ہر چار سال بعد ہمیں آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروںاوردوست ممالک سے قرض کیلئے رجوع کرنا پڑے گا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *