بلوچستان میں پانی کی قلت اورزیر زمین پانی کی سطح گرنے کی بڑی وجہ غیر قانونی ٹیوب ویلز کے ساتھ ڈیمز کی بروقت تعمیر کانہ ہونا ہے جس کی وجہ سے دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے باعث لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں جبکہ زراعت کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے جبکہ صوبے میں قحط کی وجہ بھی قلت آب ہے۔
گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔
بلوچستان میں آبی وسائل کی مخدوش صورت حال پر بلوچستان میں زیر زمین پانی کی قلت کے حوالے سے اقدامات پربھی بریفنگ دی گئی۔
حکام نے بتایا کہ بلوچستان میں مجموعی طور پر 18 دریا Basinہیں،بلوچستان میں 2021 کے بعد پانی پر کوئی سروے نہیں ہوا، 2021 کے بعد وفاقی حکومت نے سروے کیلئے فنڈنگ کی ہے،کوئٹہ میں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے، بلوچستان میں زیر زمین پانی کی قلت کی وجہ ٹیوب ویلز بن رہے ہیں، بلوچستان میں 46 ہزار رجسٹرڈ ٹیوب ویلز ہیں،حقیقت میں بلوچستان میں ٹیوب ویلز کی تعداد لاکھوں میں ہے، بلوچستان حکام کے مطابق بلوچستان میں ہزاروں ٹیوب ویلز غیر قانونی ہیں،غیر قانونی ٹیوب ویلز سے پانی حاصل کیا جارہا ہے ۔
ٹیوب ویلز کے حوالے سے 2015 کے بعد کوئی سروے نہیں ہوا۔
اجلاس کی کارروائی کے دوران بلوچستان میں ڈیمز کے غلط اعدادو شمار پیش کرنے پر چیئرمین کمیٹی برہم ہوگئے کہ کبھی آپ کہتے ہیں 64 ڈیمز ہیں کبھی 200 ڈیمز بتاتے ہیں، چیئرمین کمیٹی شہادت اعوان نے مزید کہا کہ ایک جگہ آپ نے ڈیم کی تعداد 1500 جبکہ ایک اور جگہ 4100 لکھی ہے،حتمی طور پربتائیں بلوچستان میں کل کتنے ڈیمز ہیں۔
بلوچستان میں کل 1500 ڈیمز ہیں، کچھ پر کام جاری ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری حکام کو لگتا ہے کسی نے پرانی فائل تھما دی ہے، ایک ماہ پہلے نوٹس دیا تھا لیکن آپ تیاری کرکے نہیں آئے۔
سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پی ایس ڈی پی بلوچستان میں 41 پانی کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں، لاگت 45 ارب روپے ہے، بلوچستان میں 21 منصوبے جاری ہیں۔ بہرحال بلوچستان میں قلت آب ایک سنگین مسئلہ ہے مسلسل یہی بتایا گیا ہے کہ جلد ڈیمز تعمیر کرکے پانی بحران کا مسئلہ حل کیا جائے گا مگر تعجب کی بات ہے کہ سرکاری حکام خود ہی ڈیمز کے اعداد و شمار سے لاعلم ہیں یہ المیہ ہے کہ ایک خطہ پانی جیسے بڑے مسئلے کا شکار ہے جہاں بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے، قلت آب کی وجہ سے زراعت بری طرح متاثر ہوگئی ہے ۔
کسی زمانے میں کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں سبزیوں اور پھلوںکی پیداوار زیادہ ہوتی تھی مگر پانی بحران کے باعث بیشتر زمینیں بنجر ہوگئی ہیں ،اب ان زمینوں پر کاشت کاری کی بجائے کنسٹرکشن کا کاروبار ہورہا ہے جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع کے زمیندار قلت آب کے مسائل سے دوچار ہیں حالانکہ بارشیں زیادہ ہورہی ہیں لیکن ان کا پانی ضائع ہورہا ہے چونکہ ڈیمز میں پانی ذخیرہ کرنے سمیت دیگر ذرائع موجود نہیںجس سے پانی ضائع ہورہا ہے اور ساتھ ہی تباہی کا بھی باعث بن رہا ہے۔
بلوچستان میں ڈیمز کے اصل اعداد و شمار اب تک واضح نہیں ہیں کہ کتنے تعمیر ہوچکے ہیں اور کتنے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور مستقبل میں قلت آب کے مسائل سے کیسے نمٹنا ہے اس کی بھی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
بلوچستان میں قلت آب کا مسئلہ، سرکاری حکام ڈیمزکی تعداد سے لاعلم، پانی بحران سے نمٹنے کیلئے مستقبل کا پلان؟
وقتِ اشاعت : September 30 – 2024