|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

مشرق وسطیٰ میں اس وقت جاری جنگ نے تیسری جنگ عظیم جیسی صورتحال پیدا کردی ہے۔
جنوبی غزہ میں اکتوبر سے جاری اسرائیلی بربریت کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے اس دوران اسرائیل نے جنوبی غزہ کو مکمل ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے ،ہزاروں شہادتیں ہوچکی ہیں،تعلیمی ادارے، اسپتال، فلاحی اداروں کی عمارتیں، رہائشی کمرشل عمارتوں سمیت لاکھوں گھروں کو تباہ کردیا ہے ۔
اب تک اسرائیل کے حملے جاری ہیں روزانہ سینکڑوں افراد شہید ہورہے ہیں ،جنوبی غزہ پر مکمل کنٹرول سمیت فلسطین پر قبضہ کرنے کے دیرینہ منصوبے پرصہیونی ریاست عمل پیراکا ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کا ایک اوربڑا ہدف ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ اور کنٹرول ہے جس کو اس جنگ کی آڑ میںعملی جامہ پہنانے کا امکان ہے ۔
ایران کو براہ راست جنگ میں شامل کرنے کیلئے اسماعیل ہانیہ کو ایران کے اندر نشانہ بنایا گیا تاکہ ایران اس جنگ میں کود پڑے جس کے بعد ایران پر حملوں کا جواز بن سکے۔
دوسری جانب موجودہ صورتحال میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل پر ایرانی میزائل حملوں کے جواب میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت سے انکار کردیا ہے جومحض دکھاوے کی پالیسی ہے مگر ایران کے جوہری پروگرام پر امریکہ کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ ایران کی جوہری طاقت کو ختم کیا جائے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر واضح کردیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی حمایت نہیں کرتے۔
اسرائیلی فوجی تنصیبات پر ایرانی میزائل حملوں کے بعد جو بائیڈن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھے گا، میزائل حملوں کے جواب میں ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں گی۔اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اتحادی ممالک کے سربراہان سے تبادلہ خیال کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ سمیت جی سیون ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملوں کی حمایت نہیں کی جائے گی تاہم اسرائیل کی جوابی کارروائی متناسب ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پورا مشرق وسطیٰ اس وقت خطرے میں ہے، جی سیون ممالک نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔
بہرحال ایران کے جوہری تنصیبات پر امریکہ کی ریاستی پالیسی بالکل واضح ہے جو ایران پر لگی پابندیوں کی صورت میں سامنے ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملوں میں شہادت کا بدلہ لینے کیلئے ایران کی جانب سے اسرائیل پر براہ راست 200 سے زائد میزائل فائر کیے گئے تھے۔
ایران کا کہنا تھا کہ ایران نے صرف اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، کسی بھی عوامی مرکز کو نشانہ نہیں بنایا ، تاہم ایران نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کو ان حملوں کی قیمت چکانا پڑے گی۔
اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے جوابی کارروائی کے اعلان کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے بھی موجودہ اسرائیلی حکومت سے ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مشرق وسطیٰ میں پھیلتے جنگ کا ایک بنیادی مقصد ایرانی جوہری تنصیبات پر کنٹرول ہے ،یہ جنگ اب مزید خطے کی صورتحال کو متاثر کرے گا ،پاکستان کو بھی اس تمام تر صورتحال میں محتاط انداز میں معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا جس میں سلامتی کونسل اور دفتر خارجہ کے ذریعے پالیسی بیان پر چلنا ہوگا۔
چونکہ پاکستان ایک ڈکلیئرڈ نیو کلیئر پاور ہے مگر بعض عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے جس پر ماضی میں عالمی طاقتوں کے کچھ نمائندگان کی جانب سے بیانات بھی آئے تھے ۔
لہذاپاکستان اپنے فورمز کے ذریعے پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے جبکہ اندرونی خلفشار اور دیگر اہم معاملات پر توجہ دیتے ہوئے ملک میں استحکام اور اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے تاکہ خطے میں عدم توازن کے دوران کسی بھی خلفشار سے بروقت نمٹا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *