تربت: تعلیم قوموں کی ترقی کا ضامن ہے، دنیا کے ٹاپ ترین جنگ عظیم دوئم کے بعد جب دنیا تباہ ہوئی تھی تب کچھ ممالک نے تعلیمی بجٹ پر بھاری رقم مختص کیا اور بہترین تعلیمی ادارے بنائے
اور اپنے لوگوں کو اہم اداروں میں بھیجا آج وہ ممالک دنیا پر راج کررہے ہیں بلوچ سماجی ساخت علم دشمن رہا ہے، جاگیردار اور سردار دونوں علم کے دشمن ہیں اور تعلیم کے تضاد ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے تربت میں گرلز ماڈل اسکول کے ہال میں گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اساتذہ کے عالمی دن پر مہمان خصوصی کی حیثیت میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر مالک نے کہاکہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو ایک وڑن کے تحت تعلیم پر کام کیا اس وقت اعلی تعلیم یافتہ خواتین نہ ہونے کے سبب مڈل پاس خواتین کو بھرتی کیا آج بیس سال بعد ہمارے پاس سیکڑوں پی ایچ ڈی ہولڈر موجود ہیں
ہمیں خلوص اور وڑن کے ساتھ کام کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مکران ڈویڑن نے سرداری اور نوابی سے آزادی پائی ہمارا تعلیم میں مقابلہ پاکستان کے اہم اضلاع سے کیا جانا چاہیے، سبی اور نصیر آباد سے ہم اپنا مقابلہ نہ کریں علم دشمنی جتنی ان دونوں ڈویڑن میں ہے
کہیں اور نہیں ہے ہمارے پاس دو راہ ہیں اپنی شناخت کے لیے اگر بہ حیثیت قوم زندہ رہنا ہے تو کوالٹی ایجوکیشن اپنانا ہوگا جو دنیا اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہے، اگر ہم نے مارکیٹ ڈیمانڈ کے بجائے ایجوکیشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو بے روزگار ہیدا کریں گے۔ڈاکٹر مالک نے کہاکہ کسی زمانے میں ہم روزگار کے لئے گلپ ممالک جاتے تھے یہ ہماری تعلیمی بہتری کے لیے ایک زریعہ تھا ایک بھائی نے کمائی کی تو دوسرے نے بچوں کو پڑھایا۔ ہمارے ہاں کوئی بزنس نہیں ہے، بارڈر واحد بزنس ہے جس کو ہر روز ہمارے لیے تنگ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج جب ٹیچر ڈے منایا جارہا ہے تو ہمارے درجنوں اسکول بند یا سنگل ٹیچر پر چل رہے ہیں جب کہ سیکڑوں اسکولوں میں اساتذہ ڈیوٹی سے غائب ہیں،
اس الیکشن پر ہم نے بڑے خواب دیکھے تھے کہ 2013 کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ علم کی روشنی. پھیلانے کا ایک سلسلہ شروع کریں گے مگر یہ اسمبلی ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جن کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں ہے، وزرا و اراکین اسمبلی کے بجٹ بندات و سولر پینل پر خرچ کیے جارہے ہیں تعلیم اور صحت ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جب تک ریاست تعلیم کی بہتری میں ریاستی پالیسی شامل نہ ہو تعلیم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا سے تعلیم کے ساتھ پارٹی کمٹمنٹ رہی ہے، تعلینی پروجیکٹ کے تحت ہم نے مڈل پاس بچیوں کو بھرتی کرنا شروع کیا مجھ پر بے تحاشا الزام لگائے گئے مگر یہ وڑن تھا کہ آج کا مڈل پاس بیس سال بعد پہ ایچ ڈی پیدا کرین گے جس کا مثبت نتیجہ آج اعلی تعلیمی اداروں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے،
حکومت کو تعلیم کی فراوانی کے لیے خصوصیات بنانا لازمی ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی تعلیمی وڑن نہیں ان ہی حالات میں رہ کر ہم نے خود کو ایک قوم بنانا ہے جدوجہد کرنا ہے پڑھنا ہے، اردو اگریزی سمیت دنیا کے تمام علوم اور زبانیں سیکھنے چاہیں،
قوم کی بقا کے لیے زبان الگ اہمیت کا حامل ہے، زبان کی تحفظ کے لیے سرکار سب سے بڑا ماخذ ہے لیکن ریاست مخلص نہیں ہے۔ڈاکٹر مالک نے کہاکہ اپنے ایم پی اے فنڈ سے 30 فیصد تعلیم کی بہتری کے لیے مختص کیا ہے، مختلف اسکولوں کو فنڈز فراہم کیے ہیں، موجودہ صوبائی حکومت ٹوکن کے پیچھے لگی ہے ان کی پالیسی میں تعلیم شامل نہیں ہے۔
ٹیچر کی ٹرانسفر پوسٹنگ الیکشن مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے چند حلقوں میں اساتذہ کے ساتھ اس بنیاد پر تعصب برتا جارہا ہے ہمیں مایوس و ناامید نہیں ہونا چاہیے، جدوجہد سے فتح حاصل کیا جانا ممکن ہے اداروں کو ہر حال ہی کام کرنے دیا جانا ہے۔
نیشنل پارٹی کی سیاست کا مقصد سیاست برائے سیاست نہیں بلکہ سماجی تبدیلی ہے، سماجی تبدیلی لاکر ہی تعلیمی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔اس موقع پر ڈائریکٹر تعلیم مکران غفور دشتی نے کہا کہ ہم ایک واضح پالیسی اور مشن کے ساتھ اپنے اسکولوں میں اصلاحات لارہے ہیں، اسکولوں میں سختی برتی جارہی ہے
تاکہ اساتذہ کی غیر حاضری روکا جاسکے، ہمیں اس کا اچھا نتیجہ بھی مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکران ڈویڑن میں تعلیمی ادارے فعال ہیں البتہ ہمیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے مگر محدود وسائل کے باوجود مکران ڈویڑن تعلیمی ریشو میں بہت آگے ہے جو فخر کی بات ہے۔
پروگرام میں گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کیچ کے صدر اکبر علی اکبر نے بھی خطاب کیا۔ ٹیچر ڈے کی مناسبت سے جی ٹی اے کیچ نے ضلع کیچ کے 40 اساتذہ اور اسکولز ہیڈ کو ان کی کارکردگی پر یسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا۔