کوئٹہ: پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ پیکج پر جاری کام میں سست روی ، محکمہ خزانہ کے نمائندے کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار، چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی کا محکمہ خزانہ کے نمائندے کی عدم حاضری پر تحریک استحقاق لانے کا اعلان۔
بدھ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بلوچستان اسمبلی کے کمیٹی روم میں اصغر علی ترین کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کمیٹی ممبران انجینئر زمرک خان اچکزئی, سردار عبدالرحمن کھیتران و دیگر ممبران کیعلاوہ سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، آڈیٹر جنرل بلوچستان شجاع علی،اے سی ایس پی اینڈ ڈی حافظ عبدالباسط،ایڈیشنل سیکرٹری پی ای سی سراج لہڑی،ایڈیشنل سیکرٹر محکمہ قانون سعید احمد، چیف اکائونٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس،پراجییکٹ ڈائریکٹر کوئٹہ پیکج رفیق احمد نے اجلاس میں شرکت کی۔ کمیٹی نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقی کے کوئٹہ پیکیج کے آڈٹ رپورٹ 2022-23 کی Compliance کو زیر غور لایا گیا۔ چیئرمین و پی اے سی کے ممبران نے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج پر کام کی سست روی پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔
اجلاس میں استفسار کیا گیاکہ فرمز کو پروجیکٹ میں کام کے عین درمیان میں کیوں تبدیل کیا جاتا ہے۔چیئر مین پی اے سی نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 15 جون 2017 کو NESPAK کے ساتھ کوئٹہ پیکج کا معائدہ کیا گیا۔اور اس فرم کو 286.783 ملین روپیوں کی ادائیگی کی گئی
اور اس کے بعد اس کے ڈیزائن نقائص پانے پر فرم کے ساتھ معاہدہ کو منسوخ کیاگیا اور اس کو ادا کی گئی رقم کو ریکور نہیں کیا گیا جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اب اس پراجیکٹ کو سات سال ہو گئے ہیں جو کہ محکمہ اور پراجیکٹ ڈائریکٹر کوئٹہ پیکج کی نااہلی ہے۔ اس بارے میں پی اینڈ ڈی ڈپارٹمنٹ مزید تحقیقات کر کے پی ای سی کو پیش کرے۔
بصورت دیگر مجبوراً کیس کو نیب کے حوالہ کیا جائیگا۔ کمیٹی نے محکمے کو ہدایت کی کہ کنٹریکٹ ایگریمنٹ کے مطابق فرمزکے کام سے غیر مطمئن ہونے پر ان سے نقائص کی ریکوری کی جائے۔
اربوں روپے کے اخرجات کے باوجود نئے تعمیر شدہ سریاب روڈ میں نقائص پائے جاتے ہیں۔ LRBT ہسپتال کے قریب روڈ زمین میں دھنس گیا ہے اور معمولی سی بارش پر گاہی خان چوک ، سریاب ملز اور دیگر ایریا میں اخبارات اور میڈیا رپورٹس کے مطابق روڈ پر پانی جمع ہوکر دریا بن جاتاہے۔
کمیٹی نے اسی طرح کے مسائل کو روکنے کے لیے سڑکوں کو عین ڈیزائن پر کام کرنے کی سفارش کی۔
اور جلد از جلد سروس روڈ و پراجیکٹ کو مکمل کرنے کا حکم دیا۔پی اے سی نے محکمہ کے جوابات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور تحقیقات کے فیصلہ کو دو ماہ کے وقفے کے باوجود انکوائری نہیں کی گئی۔ جس سے محکمہ کی سرکاری امور میں عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔چیئرمین نے پی اے سی کے عملے کو ہدایت کی کہ وہ سرکی روڈ بجٹ کو فوری طور پر جاری کرنے کے لیے چیف سیکریٹری کو لیٹر لکھیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بجٹ میں تاخیر قیمتوں میں اضافے ،
قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا باعث بنتی ہے۔ چیئرمین نے عملے کو بجٹ جاری کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو خط لکھنے کی بھی ہدایت کی۔
چیئرمین پی اے سی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے اپیل کی کہ وہ کوئٹہ پیکج کی تکمیل کے لئے خصوصی دلچسپی لیں اور ضروری فنڈز کو جاری کرنے کے لئے محکمہ خزانہ کو احکامات جاری کریں۔
تاکہ پروجیکٹ بروقت مکمل ہوسکے۔محکمے نے بتایا کہ امداد چوک سے سریاب پھاٹک تک سڑک رش کی وجہ سے اکثربند ہوتی ہے اس حوالے سے اس سڑک کو چوڑا کرنے کے لئے ریلوے سے زمین حاصل کی گئی ہے فنڈز جاری ہونے کے بعد کام شروع کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سمنگلی روڈ کی توسیع، بروری روڈ امداد چوک کے قریب خواتین اور بچوں کے لئے پارک سمیت دیگر منصوبے بھی منظورہوئے ہیں ان پربھی جلد کام شروع ہوگا۔ چیئرمین نے نئی بننے والی سریاب روڈ پر نئے لگائے گئے پودوں کے خشک ہونے کے بارے میں دریافت کیا۔
محکمہ نے جواب دیا کہ treated پانی سے پودوں کو پانی دینے کے لیے واسا کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے جا رہے ہیں۔پراجیکٹ ڈائریکٹر نے دوران اجلاس یہ بتایا کہ کوئٹہ کے کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے بجٹ کا 50% حاصل کرنے کے بعد کام شروع کرتے ہیں ، کیونکہ ناکافی فنڈز سے کام شروع کرنے سے عوام کیلئے کئی مسائل بنتے ہیں۔
چیئرمین پی اے سی نے فنانس ڈپارٹمنٹ کے نمائندے کی حسب سابق پی اے سی کے میٹنگ میں عدم شرکت پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہاکہ اس بارے چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کیا جائے اور اسمبلی کے اگلے اجلاس میں اس بابت محکمہ کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جائے گی ۔اجلاس کے آخر میں چیئرمین پی اے سی اصغر علی ترین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بلوچستان کا دارالحکومت ہونے کے ناطے کوئٹہ تمام ترقیاتی منصوبوں کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے ہماری پوری توجہ کا مستحق ہے۔
جیسا کہ شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ جاری ہے ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئٹہ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دیں بشمول اسکے انفراسٹرکچر، عوامی خدمات ،
اور سہولیات. ملک کو دوسرے ملکوں سے جوڑنے والا کوئٹہ کا اسٹریٹجک مقام اسے تجارت کا ایک اہم مرکز بناتا ہے۔ لہذا ، میں ایک مرتبہ پھر تمام اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پروجیکٹ کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے ، شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے کام کریں۔