ملک میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کے اربوں روپے ٹیکس چوری کے انکشاف کے بعد اب آئی ایم ایف نے بھی اس معاملے میں لب کشائی کی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو آسان شرائط پر قرض کے اقساط نہیں مل رہے بلکہ کڑی شرائط اور ان پر واضح عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے مل رہے ہیں۔
اس وقت آئی ایم ایف کی نظریں پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر لگی ہوئی ہیں۔
اگر شرائط سے ہٹ کر معاشی فیصلے حکومت کی جانب سے کئے جائیں گے تو آئی ایم ایف اپنا پروگرام روک دے گا، جس طرح پی ٹی آئی دور حکومت میں آئی ایم ایف شرائط کے برعکس معاشی فیصلے کئے گئے۔
جس کے بعد آئی ایم ایف نے قرض دینا بند کردیا۔
اس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے طویل مذاکرات اور یقین دہانیوں کے بعد آئی ایم ایف کو قرض پروگرام کیلئے راضی کیا، جس سے پاکستان معاشی ڈیفالٹ سے بچ تو گیا مگر اب بھی معاشی چیلنجز موجود ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت با اثر کاروباروں کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرتی ہے، جس سے مسابقت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو نئے میکرو اکنامک استحکام، قابل عمل معاشی پالیسیاں اور معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے کام کرنا ہوگا۔
جب کہ نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول بھی دینا ہوگا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کو حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانا ہوگی اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔
پاکستان کی شرح نمو مالی سال 2024-2025 سے 2029-2028 کے درمیان 3.2 سے 4.5 فیصد رہنے کا اندازہ ہے اور اس دوران مہنگائی ساڑھے 9 سے ساڑھے 6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چند دہائیوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں معیار زندگی کم ہوا ہے۔
پاکستان کو مضبوط معاشی پالیسیوں اور اصلاحات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی۔
پاکستان میں غریب 40 فیصد ہے، جب کہ ملک میں زیادہ پیداواری ملازمتوں کی قلت ہے۔
دستاویزات کے مطابق ماضی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اصلاحات پر عملدرآمد نہیں کیا اور نہ ہی دو دہائیوں میں عالمی تجارت کا حصہ بننے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے، جس کی وجہ سے پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکا۔
جب کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بھی برآمدات میں علاقائی ممالک کی طرح اضافہ نہیں ہوا۔
پاکستان کو پروگرام کے دوران دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے 14 ارب ڈالر کی فنانسنگ ملنے کی امید ہے۔
حکومت پر سیاسی عدم استحکام کے باعث اصلاحات اور ٹیکسوں میں کمی کا دباؤ رہے گا۔
اور سیاسی کشیدگی سے معاشی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔
حکومت نے ٹیکس وصولی کو جی ڈی پی کے 12.3 فیصد کے برابر لانے پر اتفاق کیا ہے۔
رواں مالی سال 1723 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مرکزی بینک مائیکرو فنانس بینکوں کی مالی حالت مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
اسٹیٹ بینک کم کیپیٹل رکھنے والے بینکوں کی ری کیپیٹلائز کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
جب کہ ملکی فنانشل سیکٹر میں وسعت کے لیے انشورنس اور پنشن فنڈز کو فروغ دیا جائے۔
حکومت جنوری 2025 تک ڈسکوز کو نجی شعبے کی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا کام مکمل کرے گی۔
کیپیسٹی پیمنٹس کو کم کرنے کے لیے بجلی خریداری معاہدوں کو دوبارہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے۔
آئندہ سال جنوری سے مقامی اور درآمدی گیس کی قیمتوں کو ملا کے اوسط ٹیرف لاگو کیا جائے۔
جب کہ جنوری 2025 سے گیس والے کیپٹو پاور پلانٹس کو بند کیا جائے۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت گورننس بہتر بنانے اور کرپشن کی تشخیص کے لیے ایک رپورٹ جاری کرے۔
کرپشن کی شفاف تحقیقات کے لیے نیب کی استعداد بڑھائی جائے۔
اراکین پارلیمنٹ کی طرح اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز اشخاص کے اثاثوں کو بھی فروری 2025 تک ڈکلیئر کیا جائے۔
بہرحال، سیاسی استحکام موجودہ حالات میں بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس وقت ملکی معاشی حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
جس کے مثبت اثرات معاشی حوالے سے برآمد ہو رہے ہیں۔
اب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز شخصیات کے اثاثے بھی ڈکلیئر کرنے کے مطالبے کو پورا کرنا ہوگا۔
جو اثاثے بناتے ہیں مگر ریکارڈ اور دستاویزات کی صورت میں سامنے نہیں لاتے، جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔
ملک کو معاشی بحران سے مستقل نجات کے لیے اہم فیصلے وقت کی ضرورت ہیں تاکہ ملکی معیشت مستحکم ہو اور ترقی و خوشحالی کا سفر جاری رہے۔