کوئٹہ: بلوچستان کے صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑنے کہا ہے کہ صوبے میںصحت کے مسائل اور پولیو کابڑا مسئلہ ہے کہ بلوچستان میں16 کیسزہوئے ہیں، یہ خطرے کی گھنٹی ہے ،
ہم پیچھے جا رہے ہیں کیونکہ ہم مقابلہ نہیں کر رہے ہیں،اصل مسئلہ معمول کے حفاظتی ٹیکوں کا ہے جس سے روزمرہ کے مسائل پید ا ہو رہے ہیں،حفاظی ٹیکہ جات میں 37% کے ساتھ پولیو فری بننا بہت مشکل ہے،
جب حفاظی ٹیکہ جات کی کوریج بہتر نہیں ہوگی تو ہم پولیو پر قابو نہیں پا سکتے،اس حوالے سے تمام ڈی ایچ اوز کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل درآمدکرکے اسے بہتر بنایا جائے۔ان خیالات کااظہار صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ پیر کو آئی ٹی یونیورسٹی میں صوبے کے تمام محکمہ صحت کے ضلعی افسران سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
صوبائی وزیربخت محمد کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے صحت کے حوالے سے نیا نظام نہیں بنایا توبہتری کیسے آئے گی،ہم سب نے اس نظام کو ٹھیک کرنا ہے ، باہر سے کوئی نہیں آئے گا، ہم سب مل کر اسے بہتر بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم صحبت کے شعبہ کو بہتر بنانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ اس ہدف کو بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکے۔
صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ دارلحکومت کوئٹہ میں آر ایچ سی فعال نہیں ہیں ،
ہمیں ماہر ٹیمیں چاہیے جو صحت کے نظام کو بہتر کریں ،ہمارے پاس جتنے وسائل آئیں گے اسے استعمال میں لایا جائے گا،حفاظتی ٹیکہ جات کے اعداد وشمار بہت خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں
جسے ہم سب نے مل کربہتر کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایک آرایچ سی کا ہم سب دورہ کریں گے،
اس حوالے سے ایک منصوبہ بنا رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک زوم میٹنگ ہو ، مانیٹرنگ کے لئے ایک ٹیم بنا رہے ہیں جو براہ راست صوبائی وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کو رپورٹ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے لئے ہم کام نہیں کریں گے تو او ر کون کرے گا۔کارکردگی کی بنیا دپر پوسٹنگ ہو گی ، سفارش پر نہیں ہو گی۔
صوبے کی ہسپتالوں میں دوائی کی تقسیم کا نیا نظام لا رہے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ کہ اگر ہم بی ایچ یوکو پرائیوٹ کر دیں تو نتیجہ اس کے برعکس ہو گا۔
اس موقع پر سیکرٹری صحت مجیب الرحمان،ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کوآرڈینیٹر انعام الحق،ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اوراین اسٹاف اور بی ایم جی ایف اور دیگر سرکاری محکمہ صحت کے ملازمین بھی موجود تھے۔
Leave a Reply