کوہلو: سابق صوبائی وزیر نوابزادہ گزین مری نے اپنے جاری ایک بیان میں اسلام آباد میں رونما ہونے والے کتاب” مزاحمت سے مفاہمت تک” کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں چند تاریخی عنوان کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔
مصنف غیر بلوچ ہیں اور کتاب لکھنے سے پہلے کبھی مری علاقہ نہیں گئے ہیں اور بلوچ خصوصاََ مری روایات اورتاریخ کا کچھ ادراک نہ ہونے کی سے وہ بلوچ ثقافت اور تاریخ پر کتاب لکھنے کی جسارت کیسے کرسکتے ہیں
ایک بلوچ بغیر تحقیق کے پنجاب کی تاریخ پر کتاب نہیں لکھ سکتا کیونکہ ایک عام بلوچ لکھاری پنچاب کی تاریخ، ثقافت اور روایات سے ناآشنا ہوتا ہے مصنف نے رسمی الفاظ کے چناؤ کے بجائے غیر رسمی الفاظ کا چناؤکیا ہے جوکہ عام طور ہمارے قبائلی روایات میں استعمال نہیں کیے جاتے ہیں۔
نوابزادہ گزین خان نے کتاب کے صفحہ نمبر 199 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مصنف نے جو لکھا ہے اگر کتاب کا مرکزی کردار (وڈیرہ میر ہزار مری مرحوم) حیات ہوتے تو وہ بھی مصنف کی اس تاریخی من گھڑت واقعہ کی تردید کرتے۔
کیونکہ غلط بیانی کرکے تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے نوابزادہ گزین خان مری نے مزید کہا کہ میرے والد نواب خیربخش مری نے بڑے بڑوں کی دھمکیوں کی پراوہ نہیں کی ہے
شاید مصنف اور اس کے ساتھی جذبات میں آکر کچھ زیادہ ہی کہہ گئے ہیں نوابزادہ گزین خان نے مزید کہا کہ صفحہ نمبر 183میں مصنف نے گویا گزینی اور بجارانی کی تقسیم کا ذمہ دار مرحوم نواب خیربخش مری کوٹھہرایا جو کے سراسر غلط ہے۔
نواب خیربخش مری کا سوچ گزینی اور بجارانی کی تقسیم سے بالاتر تھا۔والد صاحب نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کو یکجا اور متحد کرنے کے لیے واقف کردی تھی۔نوابزادہ گزین مری نے کتاب کے صفحہ نمبر 201_202 کے پیراگراف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر بگٹی نے ڈٹ کر شہادت قبول کیا اور وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
لیکن مصنف نے نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا تنقیدی انداز میں ذکر کیا ہے۔نوابزادہ گزین خان مری نے مزید کہا کہ کتاب کے اندر میر ہزار مری کی مختلف ریاستوں کی سفیروں وزیر، مشیروں کی ملاقات کا ذکر کیا گیا۔ میر ہزار مری مرحوم تعلیم یافتہ شخصیت نہیں تھے۔ تو مختلف ریاستی نمائندوں سے کیسے ملتے اور کیسے معاہدے کرتے؟
نوابزادہ گزین مری نے کہاکہ مرحوم شیرو مری سے لاکھ اختلاف ہی صیحح لیکن وہ ایک پڑھے لکھے شخص تھے۔
انٹرنیشنل کمیونٹی سے ملنے اور بات کرنے کی اہلیت رکھتے تھے جن کی مختلف ویب سائٹس پر انٹرویوز موجود ہیں۔
لیکن میر ہزار مری مرحوم کی غیر ملکی سفیروں اور نمائندوں کے ساتھ ایک بھی انٹرویو نہیں ہے۔ قبائلی طور پر میر ہزار مری مرحوم کا احترام اپنی جگہ مگر جس اندازسے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کتاب کے مصنف کی تحریر سے کتاب کے محرکات کوسمجھنا مشکل نہیں ہوگا جس میں نواب خیربخش مری کی شخصیت کو متنازع اور مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔