|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2024

کوئٹہ: بلوچستان پیس فورم کے سربراہ سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میرلشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کی منظوری سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا نہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے فرق پڑے گا،

مائنس بلوچستان سیاست قبول نہیں کریں گے،تیل کی تجارت پر شور مچانے والے ریکودک کے سودے پر خاموش رہے،ہم نے اپنا خاندان توڑوایا مگر ریکوڈک کا سودا نہیں کیا، بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے

جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں،سیاسی جماعتیں بلوچستان سے سنجیدہ نہیں انہیں ذاتی اور گروہی مفادات سے سروکار ہے،ریکودک اور سیندک لٹ گیا سیاسی جماعتیں خاموش رہیں موجودہ حالات میں صحافیوں نے کردار ادا نہ کیا تو مزید خرابی ہوگی صوبے میں مرضی کی حکومتیں بنتی ہیں عوام کو اس سے آگاہ نہ کیا گیا تو پولیٹیکل پراکسیز پانچ سال مزید ضائع کریں گی،

یہ بات انہوں نے جمعرات کو سراوان ہاوس میں سینئر صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے عصرانہ میں بات چیت کرتے ہوئے کہی،نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے مزید کہاکہ بلوچستان پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو صرف مفادات کی تکمیل اور صوبے کے مسائل کے حل میں رکاوٹ بنتے ہیں،لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومتوں کی کی ذمہ داری ہے لیکن بلوچستان میں منفی سرگرمیوں اور مسائل کو تقویت دی گئی

انہوں نے کہا کہ قومی حقوق کی جدوجہد کو کسی دوسری جانب لے جانے کی کوشش کی گئی تاکہ ترقی کا راستہ روک کر یہاں بدامنی کو پروان چڑھایا جاسکے وہ کونسی قوت اور غیرملکی طاقتیں ہیں جو بلوچستان میں ترقی کی مخالف لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں میں مخالف نہیں انہوں نے کہا کہ یہاں ایسے لوگوں کو حکومت کے ذریعے مسلط کیا جاتا ہے

جو صرف ہاں میں ہاں ملائیں، سیاسی جماعتوں کو بھی بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور لوگوں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کے ذاتی اور گروہی مفادات اہم ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کو جس انداز میں لوٹا گیا

اور لوٹا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے جو لوگ اس ناانصافی اور غلط کاموں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے ہر محاذ پر مشکلات پیدا کی جاتی ہیں،بلوچستان کے حقوق کے حصول اور صوبے سے نکلنے والے قدرتی وسائل سے بلوچستان اور اس کے باسیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا

جس طرح ریکوڈک اور دیگر وسائل کا سودا کرکے بلوچستان کو ایک بار پھر پسماندگی کی جانب دھکیلا گیا اس پر میڈیا سمیت تمام حلقوں اور سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر واضح موقف اپناتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ چاہیے تھا،جعلی قیادت کو پروان چڑھاکر وسائل کی لوٹ مار کے لئے مسلط کیا جاتا ہے دوسرے صوبوں سے لوگوں کو لاکر ایوان بالا کا ممبر بنایا جانا کیا معنی رکھتا ہے بلوچستان کی بہتری کیلئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنا موقف بلند کرنا ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کی منظوری سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا،انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی عمارت گراکر 5 ارب روپے سے نئی عمارت بنانے کی بجائے بلوچستان کی یونیورسٹیز کو فنڈز دے کر انہیں مالی مشکلات اور بحرانوں سے چھٹکارا دلایا جائے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے بلوچستان کے سیاسی اور دیگر معاملات کے حل کیلئے ملک کی بڑی سیاسی شخصیات کے ساتھ مل کرری امیجنگ پاکستان کے نام سے فورم تشکیل دیا لیکن فورم میں شامل سیاسی رہنماؤں نے نئی بننے والی جماعت میں مائنس بلوچستان کا فارمولا اپنایا جو ہمیں قبول نہیں اور نہ ہی کبھی قبول کرسکتے کیونکہ ہمارا جینا مرنا بلوچستان کی سرزمین سے وابستہ ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئٹہ شہر کیلئے ماسٹر پلان بنانے کا اختیار بھی نہیں اسٹیبلشمنٹ کے آزمادہ چہروں پر مشتمل پہلے باپ پارٹی بنائی گئی

پھر انہیں سیاسی جماعتوں میں شامل کرایا گیا سیاسی جماعتیں اپنے مفادات حاصل کرکے چپ ہوجاتی ہیں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے فرق نہیں پڑے گا سیاسی جماعتوں کو جب تک کنٹرول کیا جاتا رہے گا، کچھ نہیں بدلے گا۔