کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر خان ترین نے کہا ہے کہ آڈٹ کے دورن ریکارڈ پیش نہ کرنے کو جرم سمجھا جائے گا
لوکل گورنمنٹ کی زمینوں پر غیر قانونی مکینوں اور قابضین کو تین ماہ کے اندر سرکاری جائیدادیں خالی کرنی ہوں گی،سرکاری پراپرٹیز کے کرایوں پر جلد از جلد نظر ثانی کی جائیسیکرٹری لوکل گورنمنٹ اس بابت ایک کمیٹی بناکر کرایوں میں مارکیٹ ریٹس کے مطابق ریٹ مختص کریں اگر کوئی کورٹ جائے تو کیسز کی پیروی ضرور بروقت کی جائے تاکہ کیسز کا فیصلہ بروقت ہو سکے۔
یہ بات انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
اجلاس میں زابد علی ریکی، فضل قادر مندوخیل و پی اے سی کے دیگر ارکین کے علاوہ سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ عبدالرؤف بلوچ، ڈائیریکٹر آڈٹ بلوچستان سید نصیب اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج الدین لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری قانون سعید اقبال، چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس اے او لوکل گورنمنٹ محمد مزمل، سیکرٹری لوکل بورڈ بلوچستان شجاعت علی و لوکل گورنمنٹ کے دیگر اعلیٰ آفیسرز نے شرکت کی۔اجلاس میں لوکل گرنمنٹ کے آڈٹ پیراز برائے مالی سال 2022-23زیر غور آئے اس دوران لوکل گورنمنٹ کی کارکردگی اسکیمات کو بروقت مکمل نہ کرنے عوامی رقم کی ریکوری، محکمہ کے کارکردگی میں کمزوریوں سمیت اور دیگر بہت سے مسائل کمیٹی کے سامنے عیاں ہوئے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ غیر وصول شدہ کرایہ اور بدعنوانی،خضدار،لورلائی اورلسبیلہ ضلعوں میں بلدیہ کوارٹرز،ریسٹ ہاؤسز اور سرکاری دکانوں کے کرایے میں 140.825 ملین روپے اب تک وصول نہیں کئے گئیجو کہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کی نا اہلی ہے جس کو پی اے سی نے فوری طورپر وصول کرکے خزانہ میں جمع کرکے پی اے سی کو ثبوت پیش کئے جائیں
بصورت دیگر ذمہ دار آفیسرز کے خلاف کارروائی کرکے او ایس ڈی بنایا جائیگا۔
زابد علی ریکی نے سخت ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوابدیگی اور شفافیت کا فقدان ہے
پی اے سی اور ڈی اے سی کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی فائدے کے لیے قواعد کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ممبر پی اے سی فضل قادر مندوخیل نے کہا کہ مقامی حکومتیں کم کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں،جو کہ ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔اجلاس میں کہا گیا کہ واشک کا ریکارڈ،
جو 2022 میں جمع ہونا تھا اور اب تک جمع نہیں کیا گیاجو کہ لوکل گورنمنٹ کے آفیسرز اپنے فرائض کی ادائیگی میں عدم دلچسپی ہے چیف آفیسر واشک آنے کی زحمت ہی نہیں کرتا تو علاقہ میں کیا ترقیاتی کام ہوگا لہذا آفیسر اپنی اپنی تعناتی کے مقام پر ضرور حاضر رہے، دیہی علاقوں میں افسران اکثر شہروں میں رہتے ہیں، ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔اجلاس میں کہاگیا کہ سرکاری کوارٹرز، ریسٹ ہاؤسز اور دکانوں کے غیر قانونی مکینوں کی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی ہے،بارکھان میں نیشنل بینک صرف 1,000 روپے کرایہ ادا کرتا رہا، جو 2019 میں نظر ثانی کر کے 6,500 روپے کر دیا گیا،
جو کہ سرکاری املاک کی ناقدری ہے۔ محکمہ کرایہ پر نظر ثانی اور وصولی کے لیے فوری طور پر خطوط جاری کرے گا غیر قانونی مکینوں اور قانضین کو تین ماہ کے اندر سرکاری جائیدادیں خالی کرنی ہوں گی ڈی اے سی کے اجلاسوں میں غیر حاضر افسران کے سخت کارروائی کی جائے اور ان کو اجلاسوں میں شرکت کرنے کے لیے سختی سے تاکید کی جائے، آڈٹ کے دوران ریکارڈ پیش نہ کرنے کو جرم سمجھا جائے گا اور جوابدیگی کو یقینی بنایا جائے گا،سرکاری پراپرٹیز کے کرایوں پر جلد از جلد نظر ثانی کی جائے۔
سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اس بابت ایک کمیٹی بناکر کرایوں مین مارکیٹ ریٹس کے مطابق ریٹ مختص کرے اگر کوئی کورٹ جائے تو کیسز کی پیروی ضرور بروقت کیا جائے تاکہ کیسز کا فیصلہ بروقت ہو سکے۔
اجلاس میں کہا گیا پی اے سی قواعد و ضوابط اور عوامی پیسے کی اس طرح کی کھلم کھلا نظرانداز کو برداشت نہیں کرے گی۔
چیئرمین نے کہا کہ ہم جوابدگی اور واجبات کی وصولی کو یقینی بنائیں گے ان اہم مسائل کو حل کرکے، پی اے سی کا مقصد بلوچستان میں شفافیت، خود احتسابی اور موثر حکمرانی کو فروغ دینا ہے۔
جو آمدنی ان محکموں نے قومی خزانے میں جمع کروانے ہیں وہ تو یہ کام کر رہی نہیں رہے ہیں۔
لہذا سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اس بابت فوری توجہ دیں۔
Leave a Reply