کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے حکومتی آئینی ترامیم کیا
جی ایچ کیو یا آبپارہ میں پرنٹ ہورہا ہو گا بلوچستان میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں کیا ایک ایف آئی آر کاٹی گئی ہے ہم آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے
اگر ہمارے سینیٹر ز نے ووٹ دیا تو وہ کسی دباو کے تحت ہوگا آئینی ترامیم کو لانے والے کون ہیں حکومت اپوزیشن اس کے اتحادی ہیں یا عسکری قوتیں ہیں
خرم دستگیر سے کہوں گا جنرل فیض کسی دوکان کا چوکیدار نہیں جنرل باجوہ کسی بس کا کنڈیکٹر تھا وہ توہ آرمی چیف تھاان خیالات کا اظہار انہوں نے (نجی ٹی وی)خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیاسردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کی بات کی جارہی ہے
اس آئینی ترامیم کو لانے والے کون ہیں حکومت اپوزیشن اس کے اتحادی ہیں یا عسکری قوتیں ہیں کیونکہ حکومت آئینی ترامیم لانا چاہتی ہے تو کیا حکومت کا وہ مسودہ آپ نے دیکھا ہے
ہمیں پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کا ڈرافٹ مل چکا ہے لیکن حکومت کا ڈرافٹ نہیں ملا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیشہ ترامیم حکومت کی طرف سے آتی ہے حکومت کا ڈرافٹ کئی نظر نہیں آرہا ہے
حکومتی آئینی ترامیم کیا جی ایچ کیو یا آبپارہ میں پرنٹ ہورہا ہے ہمیں اس کے بارے میں علم نہیں ہے
گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینیٹر نسیمہ احسان کے بیٹے کو اٹھا یا گیا تھا سینیٹر قاسم رونجھو گردوں کے مریض ہیں ان کو ڈائیلاسس سے اٹھا کر لے گئے ہیں ان کا حال احوال نہیں ہے
خرم دستگیر یہ بات بتا سکیں گے کہ پچھلے ادوار میں ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے صرف عمران خان تھے یا عسکری قوتیں بھی تھی
اس وقت ان کے نام لیتے تھے اور کہتے تھے ووٹ کو عزت دو عزت لوٹی کس نے تھی وہ کوئی پولیٹکل پارٹی نہیں تھی
آج میں احترام کے ساتھ خرم دستگیر سے کہوں گا کہ کل جو الزامات آپ لگا رہے تھے آپ کے جلسے میں بھی آتے تھے
جنرل فیض کسی دوکان کا چوکیدار نہیں تھا بلکہ آئی ایس آئی کا ڈی جی تھا اس پر آپ لوگوں نے الزام لگائے تھے باجوہ پر جو الزام لگا رہے تھے
کیا باجوہ کسی بس کا کنڈیکٹر تھا وہ توہ آرمی چیف تھا اس پر آپ الزام لگا رہے تھے آج اچانک نسیمہ احسان کے بیٹے کو اٹھالیا گیا ہے جب کسی کے شہر اور بیٹے ان کے قبضے میں ہو شاباش ہے اس خاتون پر جس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ یہاں پولیس اور ملٹری سٹیٹ ہے
انہوں نے کہا کہ پچھلی بار میاں اور پیپلز پارٹی نے جو غلطیاں کی ان کو بگتنی پڑی ہے یہ اپنے سے کھڈہ کھود رہے ہیں بلکہ ملک اور ملک کے جمہوری اداروں اور عدلیہ کے لیے ایسے گڑا کھود رہے ہیں جس سے شاید نہ ملک نکل سکیں بلوچستان میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں
کیا ایک ایف آئی آر کاٹی گئی ہے ہزاروں مسخ شدہ لاشیں گرائی گئی ہے کیا ان کی کسی نے ایف آئی آر کاٹی ہے کیا لو گ اس ملک کے شہری نہیں ہیں سینیٹرز کو یرغمال بنانے پر چیئرمین سینٹ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا آج بھی نسیمہ احسان کے فلائٹ میں بیٹی اور بیٹے کو یرغمال بنایا ہوا ہے
یہاں پر سیٹنگ وزیر اعظم کو یرغمال بنایا جاتا ہے اس کی ایف آئی آر کاٹی نہیں جاتی ہے تو ہم غریبوں کی ایف آئی آر کہاں سے کاٹی جائے گی میں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا ہے قبو ل کریں یا نہ یہ ان کی ذمہ داری ہے ہم نے اپنی نمازیں پڑھ لی ہے ہمارے پارٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم آئینی ترامیم کا حصہ نہیں بنیں گے اگر ہمارے سینیٹر ز نے ووٹ دیا تو وہ کسی دباو کے تحت ہوگا