کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ روکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم نہیں بلکہ یرغمالی ترامیم پاس کی جا رہی ہے
اسلام آباد میں تمام پارلیمنٹرین کو یرغمال بنا کر رکھا ہے ہمارے سینیٹرز کو غائب کرنے میںسیاسی جماعتیں برابر کے شریک ہے ترامیم آبپارہ سے آرہا ہے کبھی خاکی اور کالے لفافے سے آرہی ہے
میں اپنا استعفیٰ واپس نہیں لوں گا پارٹی نے مجھے اختیار دیا ہے اس پر بھی دیر نہیں کروں گابلوچستان میں عدل تو ہے نہیں وہاں پر تو طبل ہی بجتا ہے ہم تو نا انصافی کی چکی میں کئی دہائیوں سے پس رہے
ان خیالات کا اظہار انہوں نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ میرا پاکستان آنے کا ارادہ نہیں تھا جس طرح کے حالات ہماری پارٹی کے سینیٹرز کے ساتھ گزر رہی ہے اس لیے میں واپس آیا ہوں ہمارے سینیٹرز اب بھی اور فیملی سمیت لاپتا ہے
بلوچستان نیشنل پارٹی کی آئینی ترامیم پر بات واضح ہے حکومت چائے اپوزیشن اپوزیشن جماعتیں ہو ہم کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے ہم نے آئینی ترامیم کو سنجیدہ نہیں لیا ہے کیونکہ حکومت کو آئینی ترامیم کے بارے میں خود پتہ نہیں ہے ہمارے پاس تین ڈرافٹ آئے ہیں ہم صرف اپنے سینیٹرز کی بازیابی چاہتے ہیں
73 کے ائین نے خود کچھ نہیں دیا ہے پھر ہم دیکھیں گے کہ اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں
بلاول بھٹو زرداری سے گلا کیا ہے جتنی دیگر جماعتوں سے امید نہیں تھی جتنی پیپلز پارٹی سے تھی اس ترامیم کو نادیدہ قوت زور زبردستی لوگوں کو اٹھا کر ترامیم کے لیے راضی کر رہے ہیں جن میں سیاسی جماعتیں بھی ہیں ہمارے سینیٹرز کو غائب کرنے میں برابر کے شریک ہے
موجودہ حکومت کو ٹارگٹ ملا ہے آئینی ترامیم کو منظور کرنے کا یہ آئینی ترامیم نہیں یرغمالی ترامیم پاس کی جا رہی ہے بعض سیاسی پارٹیاں اس سے انکاری ہیں ان کو بزور طاقت پریشر ڈالا جارہا ہے اس ملک کی ستم ظریفی رہی ہے اپنے کرتوت یہاں کے سیاسی پارٹیوں پر کالک ملی ہے
آج ان پارٹیوں نے یہ کالک جی حضوری اور کالک اپنے منہ پر ملتے ہوئے کیا ہے 73کے آئین میں اس طرح کی ایمرجنسی نہیں دیکھی ہے جب پاکستان دولخت ہوا تھا ہم نے اس طرح کی ایمرجنسی کا نفاذ نہیں دیکھا تھا جب سیٹینگ وزیر اعظم کو پابند سلاسل کیا ہم نے اس طرح افراتفری نہیں دیکھی تھی اسلام آباد میں تمام پارلیمنٹرین کو یرغمال بنا کر رکھا ہے
نا دن کو اور نہ ہی رات کو نیند ان کو نصیب ہوتی ہے یہ ترامیم آبپارہ سے آرہا ہے کبھی خاکی اور کالے لفافے سے آرہی ہے یہاں کبھی فیض آباد اور فیصل آباد کی ہوا چلتی ہے ہمارے پارٹی کا فیصلہ ہے کہ آئینی ترامیم کا ہم حصہ نہیں بنیں گے اگر کوئی جبر دباو کے تحت ووٹ دے گا پارٹی اس کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی ہے پارٹی ان کے خلاف کیا ایکشن لے گی وہ وقت ہی بتائے گا
بلوچستان میں عدل تو ہے نہیں وہاں پر تو طبل ہی بجتا ہے عدل ہوتا تو ہزاروں کلو میٹر خواتین اور بچے اسلام آباد نہیں آتے وہ گوادر کی طرف لانگ مارچ نہیں کرتے ہم تو نا انصافی کی چکی میں کئی دہائیوں سے پس رہے ہیں اس ملک کی سسٹم کے لیے سوچتے نہیں ہے صرف عارضی طور پر مرض کا علاج کرتے ہیں بلکہ اپنے دور اقتدار کو چلانا چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہتے ہیں
کہ عدلیہ پارلیمنٹ میڈیا آزاد ہو ہم آزاد خیال کے لوگ نہیں ہیں ہماری پرورش غلامی میں ہوئی ہے ہماری سیاست غلامی میں پھنسی ہوئی ہے اس سے نکل نہیں پارہے ہیں میں اپنا استعفیٰ واپس نہیں لوں گا پارٹی نے مجھے اختیار دیا ہے اس پر بھی دیر نہیں کروں گا
دوسری جانب سردار اختر جان مینگل نے سماجی رابطے ویب سایٹ (ایکس) پر بی این پی کے سینیٹرز کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ میرے سینیٹرز ہیں وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ ان کی حالت دیکھوپاکستان میں “اغوا برائے ووٹ” جیسی صورتحال ہے یہاں کی نام نہاد جمہوریت دراصل وہ ہے جس کی پرورش جی ایچ کیو میں ہوتی ہے اور جس کی نشوونما کسی آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر کے ہاتھوں ہوتی ہے۔جمہوریت اور 1973 کے آئین کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے ، ووٹ کو زرا اور عزت دو