|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2024

اسلام آباد، کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے دو سینیٹرز آج استعفیٰ دیں۔

نہ دینے کی صورت میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 26ویں آئینی ترامیم کے خلاف لائحہ عمل طے کرکے میدان بلوچستان ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترامیم میں شامل لوگوں کا جنازہ جلد نکلے گا۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایک ہفتے میں 54 افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔

یہ خیالات انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیے۔

اس موقع پر ساجد ترین ایڈووکیٹ، اختر حسین لانگو اور احمد نواز بلوچ بھی موجود تھے۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ سیاسی قیادت نے دن رات ایک کر کے عوام کی غربت کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ملک کی معیشت کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صرف اور صرف کسی نے اپنے اقتدار کو سیکیور کرنے کے لیے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے آنے والے دنوں میں الیکشن اور اقتدار کے لیے اپنی سی وی بنا کر اداروں کے سامنے پیش کی۔

وہ اپنے اکابرین کی جمہوریت کے لیے قربانیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

مینگل نے یہ بھی کہا کہ ان قوتوں کا ساتھ دیا گیا جنہوں نے اس ملک کی جمہوریت پر ہمیشہ شب خون مارا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے ناقص سیاسی اکابرین اور ان کے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان مظلوم عوام کی کوئی فکر نہیں۔

یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ابا اجداد کی قبریں بھی بھلا دیں۔

مینگل نے مزید کہا کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ وہ کسی ڈکٹیٹر کی وردی پہ ہیں۔

بلکہ ان جمہوریت پسندوں اور اقتدار پسندوں کی چہروں اور دامن میں جو ہے، واضح نظر آتا ہے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی پارٹی ہمیشہ پارلیمانی جمہوری سیاست کو اپناتی رہی ہے۔

ہم نے ہمیشہ اس ملک کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے حقوق اور صوبے میں ہونے والی ناانصافیوں کا تذکرہ کیا۔

یہاں کے ایوانوں میں ہم نے اس کا ذکر کیا، یہاں کی عدلیہ کے سامنے اپنی فریادیں سنائیں۔

لیکن بدقسمتی سے ہماری آئینی باتیں بھی ان کو گوارا نہیں ہوئیں۔

مینگل نے کہا کہ اسی وجہ سے انہوں نے تین ستمبر کو اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے دروازے بند نہیں کیے، جب کانسٹیٹیوشن امینڈمنٹ کی بات ہوئی تو رابطہ ہوا۔

لیکن ان کے پاس امینڈمنٹ کا کوئی ڈرافٹ نہیں تھا، جو ایک شرمناک عمل ہے۔

سینیٹرز پر دباؤ ڈالا گیا، ان کے بچوں کو اغوا کیا گیا۔

ایک خاتون سینیٹر کے شوہر کا بھی اغوا کر لیا گیا۔

اس کے بعد خاتون کو سینٹ کے فلور پر لایا گیا، جہاں وہ بات بھی نہیں کر سکتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے والوں کی آنکھیں نیچے تھیں۔

یہ بلوچستان کے سینیٹرز کی عزت کا معاملہ ہے، جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ایوان میں لایا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترامیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کے لیے ہیں۔

یہ کون سی ترامیم ہیں جو اغوا برائے تعاون کے مترادف ہیں؟

مینگل نے اپنی کوششوں کا ذکر کیا کہ انہوں نے سینٹ میں پہلی بار جا کر سینیٹرز کی حالت دیکھنے کی کوشش کی۔

جب انہوں نے گیلری میں جانے کی کوشش کی، تو انہیں نکال دیا گیا۔

انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک عمل میں برابر کے شریک ہیں۔

چاہے میاں نواز شریف ہوں یا وزیراعظم شہباز شریف، یہ سب اس عمل کا حصہ ہیں۔

پیپلز پارٹی نے 1973 کی یاد کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔

مینگل نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بے نظیر کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے نانا کے نقش قدم پر چل کر بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔

انہوں نے پارٹی کے اصولی فیصلے کی بات کی اور کہا کہ اگر سینیٹرز نے پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

انہوں نے سوال کیا کہ یہ کون سی ترامیم ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب کونسلز کا کنسنسس ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

مینگل نے آخر میں صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سیاسی پارٹیوں کا بوری بسترہ انہی ترامیم سے گول ہوگا۔