کوئٹہ: بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ نے جی ایم سید کی 21ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک آڈیوپیغام میں کہا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ آج آپ سے مخاطب ہونے کاشرف مجھے ملِا مجھے اورزیادہ خوشی ہوتی اگرمیں اس اہم تقریب میں آپ کے درمیان موجودہو تا،آزادی اورجدوجہدکیلئے آپ کے عزم،جوش اورولولے کواپنی آنکھوں سے دیکھتا لیکن ایساممکن نہ ہوسکامگرپھربھی میں یہ سب محسوس کرسکتاہوں میں چاہتے ہوئے بھی اس تقریب میں شریک نہ ہوسکااسلئے نہیں کہ فاصلہ زیادہ تھابلکہ ریاست اوراسکی فورسز وخفیہ اداروں نے ظلم،جبر،وحشت وسفاکیت کی جوفصیلیں کھڑی کی ہوئی ہیں اُن کی وجہ سے میں آپ کے درمیان حاضرنہ ہوسکاکیونکہ یاست اوراس کے غیرجمہوری حکمران آزادی وسماجی انصاف کیلئے جمہوری جدوجہدسے بہت زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں اس لئے وہ ظلم وجبراورآمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے ہمیں قومی آزادی کی جدوجہدسے روکنے کی بھونڈی پالیسی پرعمل پیراہیں ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی چیئرمین شہید غلام محمدبلوچ اوربلوچ نیشنل موومنٹ کے موجودہ مرکزی سیکریٹری جنرل شہید ڈاکٹرمنان صاحب سمیت درجنوں بلوچ سیاسی رہنماؤں،سینکڑوں سیاسی کیڈرزودانشوروں اورہزاروں سیاسی کارکنوں اوران کے ہمدردوں کی شہادتیں وجبری گمشدگیاں ہوں یاشہیدبشیرخان قریشی ،شہید مظفربھٹواورراجہ داہرسمیت سینکڑوں آزادی پسند سندھی سیاسی رہنماؤں،کارکنوں اوردانشوروں کی شہادت کے واقعات ہوں، یہ سب اس تلخ حقیقت کاثبوت ہیں کہ ریاست بلوچ اورسندھی عوام کواپنی اپنی قومی آزادی کیلئے جمہوری جدوجہدکے مسلمہ حق سے محروم رکھناچاہتی ہے ۔کیونکہ ریاست نہ صرف ایک غیرفطری ریاست ہے بلکہ یہ ایک غیرجمہوری ملک ہے آمریت اس کے خون میں رچی بسی ہے۔ریاست کی 70سالہ عمرکاآدھے سے زیادہ عرصہ آمریت رہی ہے اوربقیہ آدھے عمرکے نام نہاد جمہوری ادوارمیں بھی اصل اختیارات فورسزہی کے پاس رہے ہیں جیساکہ آج بھی داخلہ وخارجہ امور کی فورسز ہی چلارہی ہے ۔بلوچستان میں پولیس ولیویزکے اختیارات فورسز کے ایک اہم بازو فورسز کے پاس ہیں جبکہ فورسز وخفیہ ادارے توکسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اسی طرح سندھ میں پولیس کے اختیارات فورسز کی ایک شاخ کے ہاتھوں میں ہیں اب توعدالتیں بھی فورسزچلارہی ہیں پارلیمنٹ،سویلین انتظامیہ ،عدلیہ اورمیڈیاجیسے ریاستی ستون فورسز کے آلہ کارکے طورپرکام کررہے ہیں یہ نام نہادریاستی ستون عملاً فورسزکی بالادستی قبول کرچکے ہیں۔یہ سارے ادارے اوران کے سربراہ کرپشن وناجائز معاشی مفادات کے عوض ریاستی امورمیں فورسز کیلئے سہولت کارکے طورپرکام کررہے ہیں اسلئے ریاستی امورمیں جنرل ہی ڈرائیونگ سیٹ پربراجمان نظرآتاہے ظاہرہے فورسز سے سیاسی آزادیوں اورجمہوری حقوق کے احترام کی توقع تونہیں کی جاسکتی۔ آج بلوچستان اورسندھ میں قومی آزادی کیلئے جومسلح جدوجہدہورہی ہے ،یہ کوئی انتہاپسندی نہیں اورنہ یہ مسلح تحریکیں بلاجوازہیں بلکہ وقت وحالات اورریاست کے آمرانہ فطرت وپالیسی کے تناظر میں یہ مسلح تحریکیں عین فطری ،جائزاورقدرے زیادہ موثرہیں کیونکہ ریاست کے آمرحکمران یہی زبان سمجھتے ہیں۔ خلیل بلوچ نے کہا کہ آج مقبوضہ بلوچستان میں نہتے بلوچ عوام کے خلاف فورسز کی دہشتگردی اپنے عروج پرہے۔