کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں پارٹی کے مرکزی صدر سردار اختر جان مینگل، سابق ایم پی اے اختر حسین لانگو، سابق ایم پی اے احمد نواز بلوچ، ٹکری شفقت لانگو، ایم پی اے جہانزیب مینگل اور شفیع مینگل کے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ کے اندراج کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
بیان میں اسے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل جو اس وقت دبئی میں ہیں، اور ایف آئی آر سے متعلق لاعلم تھے، نام نہاد حکمران انٹرپول کے ذریعے انہیں واپس لانے کے لیے اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کریں، بس یہ بتائیں کہ کس دن، کس وقت اور کس ایئر پورٹ سے پارٹی قائد کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی قائد آ جائیں گے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل خود بھی سالوں پنجاب کے زندانوں میں قید رہے ہیں۔
بیان میں یہ واضح کیا گیا کہ ایوب خان اور ضیاء الحق کے باقیات کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جیل اور مقدمات ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔
مقدمہ ان کے خلاف ہونا چاہئے تھا جنہوں نے ہمارے سینیٹرز کو حبس بے جا میں رکھا اور انہیں ذہنی کوفت سے دوچار کیا۔
آئینی ترمیم سے قبل پارٹی رہنماؤں کے اغواء سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان کو آگاہ بھی کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس جانب توجہ نہ دی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جنرل مشرف کے دور میں پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل طویل عرصہ تک قید رہے، یہاں تک کہ ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔
کئی مقدمات بھی درج کئے گئے، جبکہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سمیت 95 سے زائد پارٹی دوستوں اور ساتھیوں کو شہید کیا گیا۔
لیکن پارٹی کے نظریہ، افکار، خیالات اور مضبوط ارادوں کو کمزور نہیں کیا جا سکا۔
آمر دور ہو یا نام نہاد سول دور حکومت، پارٹی کے خلاف دو دہائیوں سے مسلسل انتقامی کارروائیاں، قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی، ظلم و جبر، ناانصافیوں اور طاقت کا استعمال کیا گیا، مگر پارٹی کو عوام سے دور نہیں رکھا جا سکا۔
پارٹی کے 800 کے قریب مرکزی رہنماؤں و کارکنوں کو زندانوں میں قید کیا گیا، مگر بی این پی اپنے اصولی سیاسی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
اور عوامی طاقت کے ذریعے ہر آمر و ڈکٹیٹر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
بیان میں حکمرانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ اسلام آباد میں مقدمہ درج کرنے سے پارٹی قیادت کے حوصلے پست ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم ان حکمرانوں کی طرح نہیں جو مقدمات اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد علیل ہو جاتے ہیں اور سعودی عرب یا لندن علاج کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔
بلوچ اکابرین کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے، انہوں نے اصولوں کی خاطر جان تک قربان کر دی۔
جیل، زندان، ٹارچر سیل کی ہمارے سامنے کوئی وقعت نہیں ہے۔
اہل دانش اور اہل قلم اکثر یہ کہتے ہیں کہ بلوچوں کو چاہئے کہ وہ معاملات کو مذاکرات، گفت و شنید کے ذریعے حل کریں۔
اب تو عالم یہ ہے کہ بلوچستان کی سب سے بڑی سیاسی قوم پرست جماعت کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سینٹ جا کر اپنے اغواء شدہ سینٹرز کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب حکمرانوں کی چوری پکڑی جاتی ہے تو سیکورٹی حصار میں ہمارے دو سینیٹرز کو سینٹ اجلاس میں لایا جاتا ہے، جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جس سے نام نہاد جمہوریت کا بھنڈا پھوٹ جاتا ہے۔
ایوان بالا کے ممبران کو بھی اغواء برائے ووٹ کی غرض سے لاپتہ کیا جاتا ہے اور ان کے اہل خانہ کو ذہنی کوفت سے دوچار کیا جاتا ہے۔
یہ ناروا عمل حکمرانوں کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنا۔
بیان میں کہا گیا کہ پارٹی کے مرکزی صدر اس وقت ایوان کے ممبر ہیں، ان کا استعفیٰ اب تک قبول نہیں کیا گیا۔
بلوچستان کے عوامی نمائندوں کی قدر و منزلت اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے سامنے یہ ہے کہ بلوچستانی قیادت اب بات بھی نہ کر سکے۔
اگر بات کی گئی تو ان کے خلاف ایسے من گھڑت مقدمات قائم کئے جاتے ہیں اور ان کے استحقاق کو بھی مجروح کیا جاتا ہے۔
کیا حکمرانوں کا یہ پیغام ہے کہ بلوچ قیادت کی قدر و منزلت نہیں؟
یقیناً موجودہ حکمران اسٹیبلشمنٹ نے ٹھان لی ہے کہ اب بلوچ اور بلوچستانی عوام و مظلوم اقوام کو بزور طاقت کنٹرول کیا جائے گا۔
لیکن یہ ان کی بھول ہے۔
ایوب خان، ضیاء الحق، مشرف اور موجودہ و سابق سول ڈکٹیٹرز نے بلوچستان میں پانچ آپریشن کئے، ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا، لیکن استحصالی پالیسیوں کے زیر بلوچ قومی تحریک کو ختم نہ کر سکے۔
اب بھی حکمران اپنی تمام کوششیں کر لیں، پارٹی قیادت اور لاکھوں کارکن حکمرانوں اور ظلم و جبر کے سہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جیل اور زندان کم پڑ جائیں گے، لیکن پارٹی رہنماؤں و کارکنوں کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
ان تمام مظالم، ناانصافیوں اور آمرانہ روش سے بلوچستان میں مزید نفرتیں جنم لے رہی ہیں، جن کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر عائد ہو گی جو اب بھی بلوچوں کو طاقت کے ذریعے زیر کرنے کے خواہش مند ہیں۔
Leave a Reply