نوکنڈی: ریکوڈک مائننگ کمپنی(آر ڈی ایم سی) کی جانب سے ضلع چاغی کے دور دراز دیہاتوں ‘بیدوک’ اور ‘سرزے’ میں 13 سالوں سے بند دو پرائمری اسکول تعلیمی سرگرمیوں کے لیے دوبارہ کھول دیئے گئے۔
یہ اقدام آر ڈی ایم سی کی جانب سے مقامی کمیونٹی کی ترقی کے عزم کا اعادہ ظاہر کرتی ہے۔
ریکوڈک پروجیکٹ بیرک کے ساتھ بلوچستان اور پاکستان کی حکومتوں کا مشترکہ منصوبہ ہے جو ضلع چاغی میں عالمی معیار کے تانبے اور سونے کی کان تعمیر کررہے ہیں۔
آر ڈی ایم سی کی جانب سے سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کو مقامی سطح پر بنائی گئی کمیونٹی ڈویلپمنٹ کمیٹیاں (سی ڈی سی) رہنمائی فراہم کرتی ہیں جن میں مقامی اسٹیک ہولڈرز اور کمیونٹی کے رہنما شامل ہیں۔
ریکوڈک پروجیکٹ کے فین سیڈیمنٹ علاقے کی سی ڈی سی نے وہاں مذکورہ پرائمری اسکولوں کی دوبارہ بحالی کی تجویز دی تھی تاکہ مقامی کمیونٹی کے بچوں اور بچیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔
آر ڈی ایم سی نے اس تجویذ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان اسکولز کو فعال بناکر وہاں اساتذہ کی تقرری کرکے طلباء و طالبات کو مفت یونیفارم، کتابیں اور اسٹیشنری بھی فراہم کیے۔ ان دونوں اسکولوں کی اصل عمارتیں کئی سالوں سے غیر فعال رہنے کی وجہ سے خستہ حال ہوچکی تھیں
جس کے سبب آر ڈی ایم سی جلد ہی ان اسکولوں کے عمارتوں کی تعمیر و بحالی کا عمل شروع کرے گی۔ فی الحال طلباء و طالبات کی پڑھائی فوری شروع کرانے کے لیے کلاسز ان متبادل جگہوں پر منعقد کیئے جا رہے ہیں
جو مقامی کمیونٹی نے فراہم کیے۔آر ڈی ایم سی کی جانب سے تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کمیونٹی انویسٹمنٹ لیڈ محمد عیسیٰ طاہر نے کہا “تعلیم پائیدار ترقی کے ان پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جن پر کمپنی کا کمیونٹی سرمایہ کاری کا پروگرام مشتمل ہے جس میں صحت، صاف پانی، ماحولیات، فوڈ سیکیورٹی اور مقامی اقتصادی ترقی شامل ہیں۔
اس وقت ہم ریکوڈک منصوبے کے گرد و نواح کے علاقوں میں سات پرائمری اسکول چلا رہے ہیں جہاں 368 بچے زیر تعلیم ہیں جبکہ ہم اپنے تعلیمی سرگرمیوں کی فروغ کے منصوبوں کو ضلع چاغی بھر میں پھیلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تاکہ مقامی لوگوں کو علم و ہنر کے مزید مواقع فراہم کیے جاسکیں۔
تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ آر ڈی ایم سی نے ہنر فاؤنڈیشن کے اشتراک سے نوکنڈی میں ایک تکنیکی تربیتی مرکز بھی قائم کیا ہے جس کا مقصد مختلف تکنیکی علوم کے ذریعے مقامی افراد کو ہنرمند بنانا اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ آر ڈی ایم سی کے اس پروگرام کے تحت اس وقت تک 286 طلباء و طالبات آئی ٹی، پائپ فٹنگ، آفس اسسٹنٹ، الکٹریشن، کارپینٹری اور میسنری جیسے کورسز میں داخلہ لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں مقامی خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کا ایک نیا کورس بھی شروع کیا گیا
ہے جس میں انھیں معیاری ملبوسات بنانے کی تیاری کی تربیت دی جارہی ہے۔ آر ڈی ایم سی چاہتی ہے کہ آگے جاکر یہ خواتین ریکوڈک مائن سائٹ کے لیے وردیاں بھی تیار کرسکیں۔
آر ڈی ایم سی اپنے مقامی کمیونٹی کے ساتھ طویل المدتی تعلقات کی بنیاد پر ایسی ترقیاتی حکمت عملی تیار کرتی ہے جو اعتماد، احترام، شفافیت اور شراکت داری پر مبنی ہو۔ خیال رہے کہ ریکوڈک ایک طویل المدتی کان ہوگی جو کم از کم 40 سال تک چلے گی۔
آر ڈی ایم سی کے تمام تر سماجی ترقی کی سرگرمیاں مقامی کمیونٹی کو پائیدار فوائد فراہم کرنے کے لیے مْرتب کی گئی ہیں۔ ریکوڈک منصوبے کے تعمیری مرحلے میں 7500 افراد کو روزگار ملنے کی توقع ہے اور پیداوار شروع ہونے کے بعد یہ منصوبہ 4000 طویل المدتی ملازمتیں پیدا کرے گی۔
بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے منصوبوں میں سے ایک ریکوڈک دنیا کی ایک بہترین تانبے اور سونے کی کان ہوگی۔ ریکوڈک کا 50 فیصد حصہ بیرک کے پاس ہے،
25 فیصد حصہ تین وفاقی سرکاری اداروں کی ملکیت ہے جبکہ حکومت بلوچستان کے پاس 15 فیصد مکمل فنڈڈ اور 10 فیصد حصہ فری کیری کے بنیاد پر ہے۔
بیرک اس منصوبے کی 2010 اور 2011 کی فزیبلٹی کے توسیعی مطالعات کو ازسرِ نو مرتب کیا جارہا ہے جسے 2024 تک مکمل کیا جانا ہے جبکہ سال 2028 کو اس منصوبے سے پہلی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
ریکوڈک منصوبہ متوقع طور پر کم از کم 40 سال تک چلے گی۔ یہ منصوبہ ٹرک اور شاول کی مدد سے اوپن پٹ کی آپریشن کے طور پر چلے گی جہاں پروسیسنگ کی سہولیات کی مدد سے اعلیٰ معیار کے تانبے اور سونے کا کنسنٹریٹ تیار کیا جائے گا۔
اس منصوبے کی تعمیر دو مراحل میں متوقع ہے جس کی مشترکہ پروسیسنگ صلاحیت 90 ملین ٹن سالانہ ہوگی۔ریکوڈک منصوبہ پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا جبکہ اس منصوبے سے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پر بھی مثبت اور دور رس اثرات متوقع ہیں۔
اس منصوبے سے پیدا ہونے والے اقتصادی فوائد کے علاوہ یہ کان ملازمتیں پیدا کرکے مقامی معیشت کے فروغ میں مدد دے گی اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گی۔ بیرک کی جانب سے مقامی افراد اور سپلائرز کو ترجیح دینے کی پالیسی سے بلوچستان کے ضلع چاغی کی مقامی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
Leave a Reply