بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکی ایوان نمائندگان پھر متحرک ہوگئے ہیں امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ دیا۔
ایوان نمائندگان کے اراکین نے اپنے خط میں کہا کہ سابق وزیراعظم سمیت پاکستانی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی جائے۔
خط میں صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکز رکھا جائے۔
اراکین کی جانب سے لکھے گئے خط میں امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں سے جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔
خط لکھنے والے اراکین کی قیادت کرنے والے امریکی رکن گریگ کیسارکا کہنا تھا کہ امریکی اراکین کی جانب سے امریکی خارجہ پالیسی کے دیرینہ ناقد اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھنے والے سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی رہائی کیلئے اجتماعی مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے اور وہ اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے صدر جوبائیڈن کو لکھے گئے خط پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہنا تھا کہ ایس سی او اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور روسی وزیراعظم کی تفصیلی بات چیت ہوئی، کسی کے دورہ پاکستان کی خبر کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا یہ روایتی عمل ہے کہ وفود ظہرانے اور عشائیے پر بات چیت کرتے ہیں، پاک بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ایس سی او سمیت کوئی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی، رسمی اور تہنیتی جملوں کا تبادلہ روایت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو برکس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، پاکستان برکس کا رکن نہیں ہے، پاکستان نے برکس کی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی ارکان کانگریس کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط پر ردعمل میں کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کے داخلی امور پر تبصرے سفارتی آداب اور ریاستی تعلقات کے منافی ہیں، یہ خطوط پاکستان کی سیاسی صورتحال کی غلط آشنائی پر مبنی ہیں۔
بہرحال دفتر خارجہ کی جانب سے ردعمل اپنی جگہ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور وہ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اس تحریک کو امریکی سازش قرار دیا اور کھل کر امریکہ کے خلاف بات کی اور پی ڈی ایم کی قیادت کو امریکی ایجنٹ کے القابات سے نوازا مگر امریکہ سے جب بھی پاکستان کے سیاستدانوں کی حمایت میں بات کی جاتی ہے تو اس میں صرف بانی پی ٹی آئی کا ذکر ہوتا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے طویل قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں، پی ٹی آئی دور میں ان کو کوئی سہولت تک نہیں دی گئی بلکہ بانی پی ٹی آئی وزیراعظم کے منصب پر رہتے ہوئے ہر فورم پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو جیل میں ڈالنے اور تمام تر سہولیات سے محروم رکھنے کی دھمکی دیتے رہتے تھے اور اس پر باقاعدہ عمل بھی کیا جاتا تھا مگر کبھی بھی انسانی حقوق کی بنیاد پر امریکی ایوان نمائندگان نے ان جماعتوں کے قائدین کی حمایت اور حق میں نہ کبھی قرار داد پیش کی اور نہ ہی امریکی صدر کو خط لکھا ،یہ خاص سہولت صرف بانی پی ٹی آئی کو حاصل ہے ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کیلئے امریکہ میں بڑی لابی موجود ہے، بغیر لابنگ کے یہ ممکن ہی نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو خاص ٹریٹ کیا جائے۔
اب پی ٹی آئی قیادت اس کی وضاحت کریں کہ امریکہ کی خاص ہمدردی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کیوں ہے ؟ بہرحال یہ سب کے علم میں ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سابق اہلیہ جمائمہ اور ان کے خاندان کا بڑا کردار ہے اور وہ اب بھی بانی پی ٹی آئی کی پشت پر ہیںاورانہیںبھرپور سپورٹ کررہے ہیں ۔
بانی پی ٹی آئی جو الزامات اپنے مخالفین پر لگاتے تھے کہ وہ بیرونی ایجنٹ ہیں، اب یہ الزامات خود ان پر صادق آرہے ہیں۔
ویسے امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سفارتی اصولوں کے منافی ہے ا س سے اجتناب برتنا بہتر ہے تاکہ تعلقات میں خلیج پیدا نہ ہو۔
امریکی ایوان نمائندگان ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے متحرک، بانی پی ٹی آئی کا امریکی سازش کا بیانیہ کتنا جھوٹ کتنا سچ!
وقتِ اشاعت : October 25 – 2024